دورۂ جنوبی افریقہ سب سے بڑا امتحان

3 1,016

ڈھائی سال قبل جب پاکستان انگلش سرزمین پر ایک مکمل سیریز کھیلنے کے لیے اترا تھا، تو اسے سال کا سب سے مشکل دورہ قرار دیا جا رہا تھا اور پھر کچھ ملے جلے نتائج کے بعد یکدم پاکستان ڈھیر ہو گیا۔ اسپاٹ فکسنگ کے معاملے نے پاکستان کرکٹ کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ اس کے بعد پاکستان خاک تلے سے دوبارہ نمودار ہوا، یہاں تک کہ گزشتہ سال انگلستان کو متحدہ عرب امارات کے صحراؤں میں تاریخی کلین سویپ سے دوچار کر کے ثابت کیا کہ پاکستان کرکٹ اب بھی زندہ ہے۔

تنقید کا عادی ہوں، ٹیم میں میرا کردار متعین ہے، جو میں نے بہرصورت ادا کرنا ہے: مصباح الحق (تصویر: Getty Images)
تنقید کا عادی ہوں، ٹیم میں میرا کردار متعین ہے، جو میں نے بہرصورت ادا کرنا ہے: مصباح الحق (تصویر: Getty Images)

پاکستان نیوزی لینڈ، بنگلہ دیش، زمبابوے اور سری لنکا جیسے نسبتاً کمزور حریفوں کے ساتھ تو کھیلتا رہا، لیکن اب اس کا سب سے بڑا امتحان آن پہنچا ہے، عالمی نمبر ایک جنوبی افریقہ کے خلاف اسی کی سرزمین پر ایک مکمل سیریز! اور پاکستان کے کپتان مصباح الحق اس چیلنج سے بخوبی واقف ہیں، جن کا کہنا ہے کہ دورۂ جنوبی افریقہ میری قیادت کا سب سے بڑا امتحان ہوگا۔

سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کے کپتان مصباح الحق نے پریزیڈنٹ ٹرافی کا فائنل جیتنے کے بعد کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں مکمل اعتماد ہے کہ ہمارے کھلاڑی جنوبی افریقہ کو شکست دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔

38 سالہ مصباح نے کہا کہ گو کہ ماہرین اور شائقین کرکٹ ہمیں خاطر میں نہیں لا رہے، جیسا کہ انگلستان کے خلاف گزشتہ سال متحدہ عرب امارات میں سیریز سے قبل بھی کہہ رہے تھے، لیکن ہم نے وہاں بھی سب کو حیران کیا تھا۔ دراصل پاکستان کی کامیابی کا راز کھلاڑیوں کے درمیان اتحاد اور جیت کے لیے ان کا جذبہ ہے، جسے ہم نے گزشتہ چند سالوں کی محنت سے پیدا کیا ہے۔

ٹیسٹ اور ایک روزہ دستوں کے پاکستانی قائد نے کہا کہ دورۂ جنوبی افریقہ میں سب سے زیادہ انحصار بلے بازوں پر ہوگا۔ "ہم جنوبی افریقہ کو ہرانے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں، لیکن اس کے لیے بلے بازوں کو آگے بڑھ کر اپنا کردار نبھانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اندازہ ہے کہ ہمارے پاس دو یا تین بلے باز ایسے موجود ہیں جو وکٹ پر قیام کر سکتے ہیں، جنوبی افریقہ میں بالکل مختلف کنڈیشنز میں بھی وہ جم کر کھیل سکتے ہیں۔ اور اگر ہم بلے بازوں کے بل بوتے پر اسکور بورڈ پر اچھا مجموعہ اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ہمارے گیند باز اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا طریقہ جانتے ہیں۔

مصباح الحق نے کہا کہ دورۂ جنوبی افریقہ اس لحاظ سے بھی زیادہ کہیں زیادہ کٹھن ہوگا کیونکہ ہم نے گزشتہ تین سالوں میں یا تو جنوبی ایشیا میں کرکٹ کھیلی ہے یا پھر متحدہ عرب امارات میں۔ 2010ء میں دورۂ انگلستان کے بعد ہم صرف ایک مرتبہ نیوزی لینڈ گئے، اس کے علاوہ ایشیا کے مانوس حالات ہی میں مقابلے کھیلے ہیں۔ اس لیے اب ہمارے پاس موقع ہے کہ جنوبی افریقہ کی نسبتاً مختلف صورتحال میں بھی خود کو ثابت کریں۔

16 رکنی پاکستانی دستہ اتوار کو دو ماہ کے دورے کے لیے جنوبی افریقہ روانہ ہوگا، جس کا باضابطہ آغاز یکم فروری سے جوہانسبرگ میں پہلے ٹیسٹ سے ہوگا۔

یہ 2007ء کے بعد پاکستان کا پہلا دورۂ جنوبی افریقہ ہوگا، اور مصباح سمجھتے ہیں کہ گزشہ چند سالوں میں پاکستان کی تمام کامیابیوں کے پیچھے اسپنرز کا ہاتھ رہا ہے اور اب جنوبی افریقہ میں تیز باؤلرز کے پاس موقع ہوگا کہ وہ اپنی اہمیت ثابت کریں۔

انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ عمر گل اور جنید خان کو جنوبی افریقہ کی پچوں کھیلنا مشکل ہوگا۔ اور پھر ہمارے پاس ان دونوں کو سہارا دینے کے لیے سعید اجمل جیسا زبردست اسپنر بھی ہے۔ اس لیے ہمارے پاس جنوبی افریقہ کو پریشان کرنے کے لیے کافی باؤلرزموجود ہیں۔

گزشتہ کچھ عرصے سے اپنی بیٹنگ کے باعث تنقید کا نشانہ بننے والے مصباح نے کہا کہ میں اب تنقید کا عادی ہوں، لیکن سمجھتا ہوں کہ ٹیم میں میرا ایک متعین کردار ہے، جو میں نے بہرصورت ادا کرنا ہے اور مجھے یقین ہے کہ میرا اور یونس خان کا تجربہ جنوبی افریقہ میں بہت کام آئے گا۔