پاکستان کا دورۂ جنوبی افریقہ، امکانات و خدشات

3 1,030

تمام تر بلندعزائم اورخوش امیدی کے باوجود یہ حقیقت پاکستان کے کھلاڑی اور شائقین کرکٹ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ جنوبی افریقہ کوخود اس کی سرزمین پرشکست دینا ہر گز ہر گز آسان نہیں، بلکہ اگر قیاس آرائی کی بنیاد پر کوئی تناسب نکالا جائے تو حقیقت پسندانہ تخمینہ کوئی 60:40 کے تناسب سے جنوبی افریقہ کے حق میں نظر آتا ہے۔بلکہ بعض کڑا میزان رکھنے والے دوست تو شاید اس اندازے کوبھی خوش فہمی پر مبنی قرار دے ڈالیں۔ لیکن ملک کی محبت بھی کوئی شے ہے صاحب! 🙂

"ملین ڈالرز کا سوال"! کیا پاکستانی بلے باز اسٹین، فلینڈر اور مورکل کے سامنے جم سکیں گے؟ (تصویر: Getty Images)
"ملین ڈالرز کا سوال"! کیا پاکستانی بلے باز اسٹین، فلینڈر اور مورکل کے سامنے جم سکیں گے؟ (تصویر: Getty Images)

بہرحال، آئیے ذرا کھیل کے تینوں شعبوں یعنی بیٹنگ، باؤلنگ اورفیلڈنگ میں دونوں ٹیموں کا موازنہ کرتے ہیں۔ پاکستان کی ٹیم اب بھی اوپنرز کے حوالے سے مسائل کاشکار ہے۔ناصر جمشید کی بھارت میں کارکردگی انہیں مستقل موقع کا حق دار ضرور ٹھہراتی ہے لیکن پاکستان اوربھارت کی پھسپھسی پچوں پر بھارت کے "تیز" باؤلرز کے سامنے بلے بازی کے جوہر دکھانا اک اور چیز ہے اور جنوبی افریقہ کی عمودی اچھال والی تیز پچوں پر حقیقی برق رفتار گیند بازوں کا سامنا کرنا الگ چیز۔ ناصر کتنا بھی باصلاحیت ہو، ایسی کٹھن صورتحال سے نمٹنے کے لیے درکار تجربے سے محروم ہے۔ البتہ جنوبی افریقہ انوی ٹیشن الیون کے خلاف انہوں نے عمدہ کارکردگی دکھا کر عندیہ ضرور دیا ہے کہ ان کی فارم 'عالمگیر' ہے۔ دوسری جانب توفیق عمر کی سلپ میں کیچ دینے کی دیرینہ عادت تاحال برقرار ہے اور ان کی کارکردگی میں تسلسل کا بھی شدید فقدان ہے۔

گو کہ حارث سہیل کو بھی بطور اوپنر آزمایا جا سکتا ہے لیکن محمد حفیظ کی موجودگی میں شاید ان کے کھیلنے کا موقع بھی نہ آئے کیونکہ پاکستان بیک وقت چار اوپنرز تو کھلانے سے رہا۔ بہرحال، ان کا آپشن ضرور موجود ہے اور اللہ نہ کر ےکہ یہ نوبت آئے کہ پاکستان کا ٹاپ آرڈر اس بری طرح ناکام ہو جائے کہ پاکستان کو اپنے بیک اپ آپشن یعنی حارث سہیل کے انتخاب پر غور کرنا پڑے۔

اب دوسری طرف کا نظارہ کریں، جنوبی افریقہ کے کپتان گریم اسمتھ اور الویرو پیٹرسن پر مشتمل اوپننگ جوڑی مسلسل اکٹھے کھیل رہی ہے اورجنوبی افریقہ کی پچوں پر خاص طور پر اسمتھ کی کارکردگی نمایاں رہتی ہے۔بالفرض ابتدائی بلے باز ناکام بھی رہے توہاشم آملہ اور ژاک کیلس جیسے بلے باز ہر طرح کے گیندبازوں کا بخوبی مقابلہ کرنے کاشاندار ریکارڈ رکھتے ہیں۔ جبکہ جنوبی افریقہ کو نئے مرد بحران فف دو پلیسی کے علاوہ ابراہم ڈی ولیئرز اور ژاک روڈلف کا ساتھ بھی حاصل ہوگا۔

جبکہ پاکستان کو یونس خان اور مصباح الحق کی صورت میں تجربہ کار جوڑی تو میسر ہے اور اظہر علی، اسد شفیق اور فیصل اقبال کی صلاحیتوں سے بھی انکار نہیں، لیکن "ملین ڈالرز کا سوال" اپنی جگہ جوں کا توں موجود ہے کہ کیا یہ بلے باز ڈیل اسٹین کی رفتار، ویرنن فلینڈر کی سوئنگ اور مورنے مورکل کی اچھلتی ہوئی گیندوں پر اپنی تکنیک اور یکسوئی کو برقرار رکھ سکیں گے؟

جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں پاکستان کا سب سے کارآمد ہتھیار باؤلنگ ثابت ہو سکتی ہے۔ بھارت میں جنید خان نے خود کو حقیقی معنوں میں ایک کارگر باؤلر کی حیثیت سے منوایا ہے اور جنوبی افریقہ میں باؤلرز کے لیے مددگار کنڈیشنز میں ان سے مزید بہتر کارکردگی کی امید کی جا سکتی ہے۔ ایک اینڈ سے بہتر سپورٹ ملنے کے بعد عمر گل کی جانب سے بھی اچھی کارکردگی کی امید ہے۔ محمد عرفان نے بھارت میں اپنی رفتار میں اضافے اور قابل تعریف کنٹرول پر سب کو متاثر کیا اور اگر وہ اپنی فٹنس پر قابو رکھ پائے تو یقیناً جنوبی افریقہ کے بلے بازوں کے لیے بڑا مسئلہ بن سکتے ہیں۔ ان حالات میں احسان عادل کا ٹیم میں جگہ بنانا مشکل لگتا ہے لیکن اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ پاکستان کا مستقبل ہیں جبکہ وہ بلے بازی میں بھی بوقت ضرورت کام آ سکتے ہیں۔

اگر اسپن باؤلنگ کا شعبہ دیکھا جائے تو پاکستان اور جنوبی افریقہ کا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ پاکستان کے پاس اس وقت دنیائے کرکٹ کے بہترین اسپنر موجود ہیں۔ سعید اجمل، عبد الرحمٰن اور محمد حفیظ کا اس وقت کوئی ثانی نہیں ہے۔ جبکہ جنوبی افریقہ اس شعبے میں تقریباً خالی ہے اور یہی چیز کئی ماہرین کی نظر میں کھٹکتی ہے کہ جنوبی افریقہ کے پاس کوئی ایسا اسپنر موجود نہیں جو حریف بلے بازوں کو ٹھکانے لگانے میں ملکہ رکھتا ہو۔

لیکن اسپن کے شعبے میں برتری کا معاملہ تب ہوا ہو جاتا ہے جب پاکستان کے پاس ایک فاسٹ باؤلنگ آل راؤنڈر کی کمی نظر آتی ہے۔ جنوبی افریقہ اس معاملے میں ژاک کیلس جیسے آل راؤنڈر کا حامل ہے جبکہ پاکستان تہی دامن۔

وکٹ کیپنگ کے شعبے میں بالآخر پاکستان نے بغیر کسی ٹھوس وجہ کے کسی ’’غیراکمل‘‘ کو موقع دے ہی دیا ہے۔ سرفراز اچھے وکٹ کیپر ہیں اور بلے بازی میں بھی عدنان اکمل سے تو اچھی صلاحیت ہی رکھتے ہیں۔ جنوبی افریقہ انوی ٹیشن الیون کے خلاف جاری مقابلے میں انہوں نے اس وقت پاکستان کی اننگز سنبھالی جب تمام بلے باز ناکام ہو چکے تھے اور 93 رنز بنا کر اپنے انتخاب کو درست ثابت کر دکھایا۔ اگر وہ ٹیسٹ سیریز میں اس کارکردگی کو دہرا پائے تو ہو سکتا ہے کہ اکمل برادران کا پتہ ہی صاف ہو جائے۔ دوسری جانب جنوبی افریقہ کو ابراہم ڈی ولیئرز جیسے کھلاڑی کی خدمات حاصل ہیں جو وکٹ کیپر تو بلا کا ہے ہی لیکن بلے بازی میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں۔ پاکستان کے خلاف ڈی ولیئرز کی ماضی کی کارکردگی بھی بہت شاندار ہے۔

اب باری آتی ہے اس شعبے کی جس میں جنوبی افریقہ کو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کی بیشتر ٹیموں پر نمایاں برتری حاصل ہے، یعنی فیلڈنگ۔ پاکستان کی ٹیم کی فیلڈنگ میں خاصی بہتری تو آئی ہے، خصوصاً دورۂ بھارت میں ٹیم نے اچھی فیلڈنگ کا مظاہرہ کیا، لیکن برصغیر اور ملتی جلتی کنڈیشنز میں سست پچوں پر سلپ فیلڈنگ کے عادی کھلاڑیوں کی تیز وکٹوں پر آزمائش ابھی تک نہیں ہو پائی۔ جبکہ گراؤنڈ فیلڈنگ میں بھی حریف کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی کھلاڑیوں کو غیر معمولی محنت کرنا پڑے گی۔

اگر جنوبی افریقہ اورنیوزی لینڈ کی حالیہ ٹیسٹ سیریز کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیریز میں جیت کا اصل عنصر بلے بازی ہے۔ مہمان ٹیم کی ناکامی کی اہم ترین وجہ یہ رہی کہ گیند بازوں کی عمدہ کارکردگی کے باوجود نیوزی لینڈ بلے باز کم ترین اسکور پر ڈھیر ہو کر مقابلے گنواتے رہے۔

یہ اجمالی جائزہ جنوبی افریقہ کی واضح برتری تو ظاہر کرتا ہی ہے لیکن اگر پاکستانی ٹیم پختگی اور مثبت ذہن کے ساتھ میدان میں اترے تو نتائج مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔ وگرنہ شائقین کرکٹ کو عمدہ مقابلے تو دیکھنے کو ملیں گے ہی۔