[باؤنسرز] دورۂ زمبابوے، امتحان یا مشق؟
پانچ برس قبل جنوری میں زمبابوے نے پانچ ون ڈے میچز کی سیریز کیلئے پاکستان کا دورہ کیا تھا جس کے پانچوں میچز میں زمبابوے کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ایسا نتیجہ تھا جس کی توقع کی جارہی تھی اور پھر اس سیریز میں سب کچھ توقعات کے عین مطابق ہوا۔اگر زمبابوے کی ٹیم کسی ایک میچ میں بھی پاکستان کو شکست دینے میں کامیاب ہوجاتی تو اسے توقعات کے برعکس کہا جاتا۔
پاکستان نے اس سیریز میں ناصر جمشید، سمیع اللہ نیازی، کامران حسین، خالد لطیف، سہیل خان،عبدالرؤف،خرم منظور، رضوان احمد اور وہاب ریاض کو پہلی مرتبہ پاکستان کی نمائندگی کا موقع دیا جبکہ اس سیریز سے قبل سرفراز احمد کا تجربہ بھی صرف ایک ون ڈے کا تھالیکن اس کے ساتھ ساتھ گرین شرٹس کو کپتان شعیب ملک کے علاوہ محمد یوسف، یونس خان، شاہد آفریدی اور کامران اکمل جیسے سینئر کھلاڑیوں کا بھی ساتھ حاصل تھا۔ اگرچہ پاکستانی ٹیم نے اس سیریز میں 9 نئے کھلاڑیوں کو پہلی مرتبہ انٹرنیشنل کرکٹ میں اترنے کا موقع دیا مگر پانچ سال قبل بھی قومی سلیکشن کمیٹی کے ذہن میں یہ خوف موجود تھا کہ کہیں زمبابوے کے ہاتھوں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے اس لیے پہلے تین میچز میں صرف تین نئے کھلاڑیوں کو ڈیبیو کا موقع ملا جبکہ سیریز جیتنے کے بعد آخری دو میچز میں چھ کھلاڑیوں کو گرین کیپ تھما دی گئی۔
اسی طرح سیریز کے پہلے تین میچز میں سینئر وکٹ کیپر کامران اکمل پر ہی بھروسہ کیا گیا اور سیریز جیتنے کے بعد سرفراز کو موقع دیا گیا۔ سلیکشن کمیٹی پانچ برس قبل بھی خوف کا شکار تھی جس نے زمبابوے جیسی ٹیم کے خلاف بھی ڈرتے ڈرتے نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دیا جبکہ آج پانچ سال بعد بھی سلیکشن کمیٹی اور ہیڈ کوچ سمیت پورے کرکٹ بورڈ میں یہ خوف موجودہے کہ کہیں زمبابوے جیسی ٹیم کے خلاف شکست نہ ہوجائے اسی لیے ٹی20 کی عالمی رینکنگ میں سرفہرست پوزیشن کے قریب ہونے کا موقع ضایع ہوجائے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ٹیم نے زمبابوے جیسی سائیڈ کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے اسکواڈ میں صرف ایک نئے کھلاڑی کو جگہ دی ہے جسے شاید دو میچز کی سیریز میں کھیلنے کا موقع بھی نہ ملے لیکن عالمی رینکنگ میں آخری درجے کی سائیڈ کو زیر کرنے کیلئے سلیکشن کمیٹی نے محمد حفیظ، شاہد آفریدی، سعید اجمل جیسے تجربہ کار کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کیا ہے جبکہ احمد شہزاد، ناصر جمشید، جنید خان اور سہیل تنویر بھی اس فارمیٹ کا بھرپور تجربہ رکھتے ہیں۔
زمبابوے کو زیر کرنے کیلئے سلیکشن کمیٹی نے مضبوط ترین اسکواڈ تشکیل دیا ہے اور اب پاکستان کو دو میچز کی ٹی20سیریز جیتنے میں کسی بھی قسم کی مشکل نہیں ہونی چاہیے بلکہ گرین شرٹس کو دونوں میچز بڑے مارجن سے جیتنے چاہئیں مگر 2008 کی ہوم سیریز کی طرح حالیہ سیریز کو بھی نہایت "اہم" قرار دیا جارہا ہے۔ "زمبابوے کو آسان حریف نہیں سمجھتے" جیسے بیانات سامنے آرہے ہیں اور ہیڈ کوچ زمبابوے جانے والے جہاز پر یہ کہتے ہوئے بیٹھے کہ "مثبت نتائج کیلئے اپنی بہترین کوشش کریں گے" ہیڈ کوچ سے صرف ایک سوال ہے کہ کیا جنوبی افریقہ یا انگلینڈ کے دورے پر جاتے ہوئے کیا وہ اس سے مختلف بیان دیں گے؟ بلکہ بڑے ٹورز پر روانہ ہوتے ہوئے بھی انہیں اسی قسم کے بیانات کی ضرورت پڑتی ہے لیکن ڈیو واٹمور نے زمبابوے کو بھی انگلینڈ اور جنوبی افریقہ جیسی ٹیموں کی صف میں کھڑا کردیا ہے جن کے ملک میں کھیلتے ہوئے پاکستانی ٹیم صرف مثبت نتائج دینے کی "کوشش" ہی کرتی ہے۔
زمبابوے کے دورے کو اتنی زیادہ "ہائپ" دینا کسی ڈرامے سے کم نہیں ہے جس میں کوچ کے علاوہ سلیکشن کمیٹی اور پوری ٹیم انتظامیہ اپنا اپنا کردار ادا کررہی ہے کیونکہ زمبابوے جیسی ٹیم کے خلاف کامیابی کو صرف اس لیے ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے سے تعبیر کیا جارہا ہے تاکہ وطن واپسی پر لاہور ایئرپورٹ پر پھولوں کے ہاروں سے لدے یہ کردار بانچھیں کھلاتے ہوئے ایسا بیان دے سکیں کہ ان کی نگرانی میں قومی ٹیم ایک اور معرکہ سر کرکے آئی ہے۔
پاکستانی ٹیم کے دورہ زمبابوے کو بلاوجہ اور بلاضرورت "امتحان" قرار دیا جارہا ہے حالانکہ یہ دورہ مشق سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے، جہاں سینئر کھلاڑیوں کو اپنے اعدادوشمار بہتر کرنے اور نوجوان کھلاڑیوں کو بین الاقوامی کرکٹ سے ہم آہنگ ہونے عمدہ موقع ملے گا۔ یہ ٹور عمر امین ،انور علی، حارث سہیل، صہیب مقصود جیسے کھلاڑیوں کیلئے اپنی صلاحیتوں کا ثبوت دینے کا عمدہ موقع ہے مگر اس ٹور کو "امتحان" بنا دینے کی پالیسی بالکل غلط ہے جو سلیکشن کمیٹی اور ٹیم انتظامیہ نے اپنائی ہوئی ہے بلکہ یہ ٹور قومی ٹیم کو پریکٹس دینے اور رینکنگ بہتر بنانے کا بہانہ ہے جس میں کامیابی کو "فتح عظیم" قرار دے کر بھنگڑے ڈالنے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے !!