[باؤنسرز] پونے چھ رنز کے بیٹسمین!!
زمبابوے کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں پاکستان کی پہلی اننگز 249 رنز پر تمام ہوئی، جس میں سے 49 سعید اجمل کے ہیں اور بقیہ 200 رنز میں سے 131 رنز مشترکہ طور پر اظہر علی اور مصباح الحق نے اسکور کیے جس کا مطلب ہے کہ آٹھ کھلاڑیوں جن میں چار اسپیشلسٹ بیٹسمین اور ایک وکٹ کیپر شامل تھا، نے صرف 69رنز بنائے یعنی ساڑھے آٹھ رنز فی بیٹسمین!اور اگر اظہر علی اور مصباح الحق کے علاوہ چار اسپیشلسٹ بیٹسمینوں کے رنز کو یکجا کیا جائے تو مجموعہ بنتا ہے 23رنز یعنی پونے چھ رنز فی بیٹسمین... یہ ہے پاکستان کی زمبابوے کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگز کی کہانی!!
ہرارے ٹیسٹ کی پہلی اننگز مکمل ہونے کے بعد مجھے اپنی غلطی تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ زمبابوے کے خلاف سیریز شروع ہونے سے قبل میں نے یہ اندازہ لگالیا تھا کہ یہ سیریز پھیکی اور بور ثابت ہوگی جس میں پاکستانی ٹیم باآسانی تینوں فارمیٹس میں وائٹ واش کرنے کے بعد پھولوں کے ہاروں سے لدی وطن واپس آجائے گی۔ شائقین کی دلچسپی اس سیریز میں محض اتنی ہی ہوگی کہ وہ ایک دوسرے سے حتمی نتیجہ جان کر اطمینان کا اظہار کریں گے کہ ’’یار...کل پاکستان کس مارجن سے جیتا؟‘‘ ماہرین اس سیریز کو سری لنکا اور جنوبی افریقہ سے مقابلے سے قبل اچھی تیاری قرار دیں گے مگر سب کچھ توقعات اور اندازوں کے برعکس ہوا اور پاکستانی ٹیم نے زمبابوے کے ٹور کو بھی دلچسپ بنادیا۔پاکستانی ٹیم میں یہ خوبی موجود ہے کہ وہ کسی بھی ٹیم کے خلاف کسی بھی فارمیٹ کے میچ کو دلچسپ اور سنسنی خیز بنا سکتی ہے ۔رواں سال کے آغاز میں جنوبی افریقہ کے ٹور پر ون ڈے سیریز کے دوران شائقین میں بالکل وہی بے چینی اور اضطراب تھا جو زمبابوے کے خلاف پچاس اوورز کے فارمیٹ کھیلتے ہوئے نظر آیا۔ دنیا کی ٹاپ ٹیم کے خلاف بھی پاکستان کی سیریز سنسنی خیز رہی جس کا فیصلہ آخری میچ میں جا کر ہوا اور تیسرے درجے کی ٹیم زمبابوے کے خلاف بھی ون ڈے سیریز کا فیصلہ سیریز کے آخری میچ میں ہی ہوا۔ ٹی20فارمیٹ میں پاکستانی بالرز وکٹوں کے حصول میں جدوجہد کا شکار دکھائی دیے تو اسے مختصر ترین فارمیٹ کا تقاضہ کہہ کر نظر انداز کردیا گیا کہ پچاس اوورز کے فارمیٹ میں پاکستانی ٹیم زیادہ بہتر انداز میں کھیلتے ہوئے زمبابوے کو آؤٹ کلاس کردے گی مگر پہلے ہی میچ میں گرین شرٹس خود ناک آؤٹ ہوگئے۔ ون ڈے سیریز تو جیسے تیسے کرکے جیت لی مگر ٹیسٹ سیریز کے آغاز سے قبل پورا یقین تھا کہ میچ سے ایک دن پہلے تک ہڑتال کی دھمکیاں دینے والے زمبابوے کے کھلاڑی پانچ روزہ کرکٹ میں پاکستان کیلئے ترنوالہ ثابت ہوں گے اور سیریز میں پاکستانی بالرز کشتوں کے پشتے لگادیں گے اور پاکستانی بیٹسمین رنز کے ڈھیر، مگر اس سیریز کا پہلا ہی دن پاکستانی شائقین کے دلوں کی دھڑکنیں تیز کرنے کا سبب بن گیا جہاں پاکستانی بیٹسمین سورج کی بھرپور تمازت میں سیدھی اور سپاٹ وکٹ پر اوسط درجے کے بالنگ اٹیک کے خلاف اس طرح کھیلے جیسے وہ لارڈز میں بادلوں سے گھرے آسمان کے تلے ایک سیمنگ وکٹ پر انگلش پیسرز کا سامنا کررہے ہوں۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک فارمیٹ میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے بیٹسمین دوسرے فارمیٹ میں جاتے ہی اپنی فارم کیوں کھو بیٹھتے ہیں۔ احمد شہزاد ٹی 20 میچز میں غیر معمولی پرفارمنس دکھاتا ہے مگر ون ڈے سیریز میں اچانک اس کے بیٹ کو زنگ لگ جاتا ہے جو ٹیم میں اپنی جگہ پکی کرنے کیلئے خود غرضانہ انداز میں کھیلنا شروع ہوجاتا ہے۔ سنچری میکر محمد حفیظ ون ڈے سیریز میں مین آف دی سیریز کا اعزاز حاصل کرتے ہیں مگر سفید یونیفارم پہنتے ہی ’’پروفیسر‘‘ کے پیر حرکت کرنا بھول جاتے ہیں اور وہ سلپ فیلڈرز کو کیچنگ پریکٹس کرواتے ہوئے پویلین لوٹ جاتا ہے۔ حفیظ نے اپنی کارکردگی کا سلسلہ وہیں سے شروع کیا ہے جہاں سے سال کے آغاز میں جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز سے ختم ہوا تھااور اس دوران آئرلینڈ اور زمبابوے کیخلاف ون ڈے فارمیٹ میں اسکور کی گئی سنچریاں بھی ٹیسٹ کرکٹ میں حفیظ کی بیٹنگ کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت نہ ہوسکیں۔گزشتہ برس سری لنکا کے خلاف 196رنز کی اننگز کھیلنے کے بعد محمد حفیظ ٹیسٹ کرکٹ میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں جنہوں نے کیرئیر بیسٹ اننگز کے بعد حفیظ نے اگلی دس اننگز میں صرف ایک نصف سنچری اسکور کرتے ہوئے 14.30 کی اوسط سے 143رنز ہی بنائے ہیں جبکہ 2013ء میں اب تک محمد حفیظ کے 48رنز 7اننگز میں 6.85کی غیر معمولی اوسط کے ساتھ سامنے آئے مگر اس کے باوجود ’’پروفیسر‘‘ کو ٹیسٹ ٹیم سے ڈراپ کرنے کی ہمت کسی میں نہیں ہے!
2010ء میں آسٹریلیا کیخلاف 77 رنز بنانے والے خرم منظور کو لگ بھگ تین برس بعد واپسی کا موقع ملا تو ان کی بیٹنگ میں کہیں بھی یہ عنصر دکھائی نہیں دیا کہ وہ اس موقع کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں ۔یونس خان پاکستان کے سب سے سینئر بیٹسمین ہیں اور پاکستان کیلئے کئی کارنامے سر انجام دے چکے ہیں مگر زمبابوے کے خلاف پہلی اننگز میں تین رنز بنانے والا بیٹسمین اب اپنے زوال کی جانب گامزن ہے جس کیلئے حالیہ سیزن نہایت اہم ہوگا کیونکہ اگر آنے والے میچز میں بھی یونس کی کارکردگی ایسی ہی رہی تو پھر شاید یونس خان کو دوبارہ ٹیسٹ کرکٹ میں بھی نہ دیکھا جاسکے۔
3/27 کا اسکور پاکستانی بیٹنگ لائن کی بربادی کی داستان سنا رہا تھا کہ مرد بحران مصباح الحق کیساتھ چھ ماہ بعد انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے والے اظہر علی نے ٹیم کو بحران سے نکالتے ہوئے 93رنز کی شراکت قائم کی مگر مصباح کے آؤٹ ہونے کے بعد اسد شفیق نے بھی پویلین لوٹنے میں دیر نہ لگائی اور جلدہی پاکستان کا اسکور 8/182 ہوگیا جس میں اظہر علی کی وکٹ بھی شامل تھی۔ یہاں اگر سعید اجمل نویں وکٹ پر جنید خان کیساتھ 67 رنز کی قیمتی شراکت قائم نہ کرتا تو پاکستانی ٹیم زمبابوے کیخلاف 200 کا ہندسہ بھی عبور نہ کرسکتی۔یہی وہ کارکردگی ہے جو پاکستانی بیٹسمینوں نے جنوبی افریقہ کے ورلڈ کلاس اٹیک کیخلاف دکھائی تھی اور اب زمبابوے کی اوسط درجے کی بالنگ کے سامنے بھی پاکستانی بیٹسمین بھیگی بلی بنے دکھائی دیے۔ پاکستانی بیٹسمینوں کو اس کارکردگی کو ٹی20 کرکٹ کا ’’کمال‘‘ کہیں یا کچھ اور مگر حقیقت یہی ہے کہ مختصر فارمیٹ میں مسلسل کھیلنے کے بعد پاکستانی بیٹسمین گیند کو پرکھ کر کھیلنے اور باہر جاتی ہوئی گیندوں کو چھوڑنے کی عادت بھول چکے ہیں جس کے سبب انہیں ٹیسٹ کرکٹ میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ کچھ بیٹسمین ایسے ہیں جو صرف سینئر ہونے کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔
زمبابوے کیخلاف ٹیسٹ سیریز کے پہلے ہی امتحان میں پاکستانی بیٹسمین ’’پونے چھ رنز‘‘کے بیٹسمین ثابت ہوئے ہیں جن کی شاید اہلیت ہی اتنی ہے یا ان کا ٹمپرامنٹ انہیں ایسی ہی کارکردگی دکھانے کی اجازت دیتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ دوسری اننگز میں سنبھلتے ہوئے کوئی ایک بیٹسمین بڑی اننگز کھیلنے میں کامیاب ہوجائے گا ،پاکستان یہ سیریز بھی باآسانی جیت لے گا جس کے بعد تمام تر خامیوں کو اسی طرح چھپا دیا جائے گا کہ جیسا کہ مختصر فارمیٹ کی سیریز کے بعد کیا گیا مگر ’’پونے چھ رنز‘‘ کے یہ بیٹسمین کب مستقل بنیادوں پر پرفارمنس دکھائیں گے اس کا جواب شاید کسی کے بھی پاس نہیں!!