سلیکشن کمیٹی کیا ’’گُل‘‘ کھلا رہی ہے؟
گزشتہ ہفتے بھائی کی شادی میں شرکت کیلئے چند دن سیالکوٹ میں گزارنے کا موقع مل گیا اور شادی کی مصروفیت کے باوجود میں نے وہاں ٹیسٹ اوپنر شان مسعود کا انٹرویو بھی کیا جبکہ سیالکوٹ کے جناح پارک میں حبیب بنک اور پورٹ قاسم کی ٹیموں کے درمیان پریذیڈنٹ ٹرافی کے میچ کے پہلے دن کے کھیل کے کچھ اوورز دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا جس میں عمر گل اور احسان عادل کی تباہ کن باؤلنگ نے پورٹ قاسم کی ٹیم کو پہلی اننگز میں صرف 65پر ڈھیر کردیا۔ عمر گل نے پہلی اننگز میں 12رنز کے عوض پانچ اور دوسری اننگز میں 64رنز دے کر چھ کھلاڑیوں کو پویلین کا راستہ دکھایااور دوسری اننگز میں پاکستان کے سب سے تجربہ کار فاسٹ باؤلر نے 25اوورز کرواکر اپنی فٹنس کا بھرپور ثبوت دیتے ہوئے دبے لفظوں میں سری لنکا کے خلاف کھیلنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا لیکن محمد عرفان کی عدم موجودگی کے باوجود سلیکشن کمیٹی نے عمر گل کو منتخب کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی اور جب پہلے دو میچز میں پاکستانی باؤلرز کی اچھی خاصی درگت بن گئی ہے تو ٹیم مینجمنٹ کے مطالبے پر عمر گل کو شارجہ بھیجا جارہا ہے تاکہ تیسرے ون ڈے میں عمر گل کا تجربہ پاکستانی باؤلنگ لائن کو مضبوط کرسکے ۔
سیالکوٹ میں عمر گل طویل عرصے کے بعد پہلا فرسٹ کلاس میچ کھیل رہے تھے جس میں انہوں نے ہر طرح سے اپنی فارم اور فٹنس کا ثبوت پیش کردیا جبکہ خود عمر گل بھی یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کیلئے تیار ہیں لیکن پاکستان کے تجربہ کار فاسٹ باؤلر کو غیر ضروری طور پر اسکواڈ کا حصہ کیوں نہ بنایا گیا کیونکہ محمد عرفان کی انجری کے بعد اگر عمر گل کو منتخب کرلیا جاتا تو پاکستان کا پیس اٹیک مضبوط ہوسکتا تھا جس میں جنید خان کے ساتھ دوسرے حقیقی فاسٹ باؤلر کی کمی محسوس ہورہی تھی۔سری لنکا روانہ ہونے سے پہلے ٹیم مینجمنٹ کو بھی اس بات کا خیال نہ آیا کہ محمد عرفان کی غیر موجودگی میں پاکستانی فاسٹ باؤلنگ قدرے کمزور ہے جس میں کسی تجربہ کار فاسٹ باؤلر کی کمی محسوس ہورہی تھی۔
اپنے مستقبل سے بے خبر نشستوں پر ’’اکڑوں‘‘ بیٹھی سلیکشن کمیٹی کے اراکین بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ٹیم کو کس موقع پر کس کھلاڑی کی ضرورت ہے اور انہیں اپنی غلطی کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ عمر گل کو ون ڈے اسکواڈ میں شامل کرنے کا فیصلہ بھی سلیکشن کمیٹی نے ازخود نہیں کیا بلکہ ٹیم مینجمنٹ کے مطالبے پر عمر گل کو متحدہ عرب امارات روانہ کیا جارہا ہے۔عمر گل نے گزشتہ نو ماہ کے دوران انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیلی اور اگر عمر گل تیسرے ون ڈے سے قبل شارجہ پہنچ بھی گئے تو سفری تھکاوٹ، انٹرنیشنل کرکٹ سے طویل دوری عمر گل کو فائنل الیون میں شامل کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے اور اگر ٹیم مینجمنٹ نے عمر گل کو تیسرے ون ڈے میں کھلانے کا خطرہ مول لے بھی لیا تو عمر گل دوبارہ زخمی بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ ایک دن پہلے اسلام آباد میں ڈومیسٹک کرکٹ کا میچ کھیلنے والے پیسر کو انٹرنیشنل کرکٹ سے ہم آہنگ ہونے میں مشکل پیش آسکتی ہے ۔
پاکستان کرکٹ میں ہر کام عجلت اور افراتفری میں کرنے کی عادت پروان چڑھ چکی ہے اور سلیکشن کمیٹی بھی اسی رنگ میں رنگی ہوئی ہے ۔عمر گل کو پہلے غیر ضروری طور پر ٹیم سے باہر رکھنا اور پھر عجلت میں اسکواڈ کا حصہ بنانا اسی افراتفری پالیسی کا حصہ ہے جس پر پورا کرکٹ بورڈ چل رہا ہے اور سلیکشن کمیٹی بھی نت نئے گل کھلارہی ہے جس کے کسی بھی رکن نے سیالکوٹ جاکر عمر گل کی فٹنس معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی تجربہ کار پیسر کی اس بات پر اعتبار نہ کیا جو خود کو مکمل طور پر فٹ سمجھتے ہوئے پاکستانی ٹیم میں واپسی کا خواہش مند تھا ۔ ماضی کی سلیکشن کمیٹیاں بھی اس قسم کے فیصلے کرتی رہی ہیں اور موجودہ سلیکشن کمیٹی بھی انہی کے نقش قدم پر چل رہی ہے جس نے حالیہ عرصے میں کئی نوجوان کھلاڑیوں کو قومی ٹیم کا حصہ بھی بنایا ہے لیکن اس کیساتھ ساتھ سلیکشن کمیٹی کو ٹیم کی ضرورت کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا کہ کن کنڈیشنز میں قومی ٹیم کو کون سے کھلاڑیوں کی ضرورت ہے ۔
سلیکشن کمیٹی نے عمر گل کو ابتدائی طور پر اسکواڈ سے باہر رکھ کر جو غلطی کی تھی اس کا ازالہ ٹیم مینجمنٹ نے کرلیا ہے اور عمر گل کی واپسی سے پاکستانی باؤلنگ لائن آخری دو میچز میں کافی مضبوط ہوجائے گی اور ٹیم مینجمنٹ کو بھی اس بات پر شکر ادا کرنا چاہیے کہ سلیکشن کمیٹی نے ان کی ’’درخواست‘‘قبول کرکے عمر گل کو بروقت شارجہ روانہ کردیا ہے اور کوئی نیا ’’گل‘‘ نہیں کھلایا ورنہ ماضی میں تو سلیکشن کمیٹیاں فاسٹ باؤلر کے مطالبے پر وکٹ کیپر کو بھی ٹور پر روانہ کرچکی ہے!!