کیا ’’ایکس فیکٹر‘‘ سعید اجمل ’’ایکسپائر‘‘ ہورہا ہے؟
پاک-سری لنکا دوسرے ٹیسٹ کے پہلے روز جب پاکستان نے دوسرے سیشن میں جب 5 وکٹیں گنوائیں تو گویا انہی دو گھنٹوں میں سیریز کا بھی فیصلہ ہوگیا تھا۔ بیٹنگ کے لیے سازگار وکٹ پر پاکستانی بلے بازوں نے جس بے پروائی سے اپنی وکٹیں گنوائی تھیں، اس کے بعد سری لنکن بیٹسمینوں سے یہ توقع رکھنا عبث تھا کہ وہ بھی پاکستانیوں جیسی ہی کارکردگی دکھائیں گے۔ انہوں نے دوسرے دن 153 رنز کی شاندار برتری حاصل کرکے مقابلہ پاکستان کی گرفت سے کہیں دور کردیا ہے اور اگر کل لنکا 300 رنز کی بھی برتری حاصل کرنےمیں کامیاب ہوگيا تو پاکستان کو سیریز بچانے کے لالے پڑ جائیں گے۔
ایک سیدھی وکٹ پر سری لنکا کے بیٹسمینوں کو قابل کرنا پاکستانی باؤلرز کے لیے پہلے ہی ’جوئے شیر لانے‘ کے مترادف تھا کہ رہی سہی کسر خراب فیلڈنگ نے پوری کردی۔ وکٹ کیپر سرفراز احمد، جن کے پاس سنہرا موقع تھا کہ کارکردگی کے ذریعے لوگوں کو رائے بدلنے پر مجبور کرتے، نے بری طرح مایوس کیا۔ بیٹنگ تو کجا انہوں نے تو وکٹوں کے پیچھے کیچ چھوڑ کر اپنی حمایت کرنے والوں کو منہ چھپانے پر مجبور کردیا ہے۔ درحقیقت سرفراز اپنی واپسی کو ’’جسٹیفائی‘‘ ہی نہیں کرسکے۔ بائیں ہاتھ کے باؤلرز کے سامنے وکٹوں کے پیچھے سرفراز کا فٹ ورک بہت ناقص تھا، جو کیچ چھوڑنے کے علاوہ کئی مرتبہ گیند تھامنے میں بھی ناکام رہے۔
پاک-لنکا سیریز کے آغاز سے قبل سعید اجمل کو ’’ایکس فیکٹر‘‘ قرار دیا جا رہا تھا۔ سعید نے ٹیسٹ کرکٹ میں ان مواقع پر بھی پاکستان کے لیے اہم کردار ادا کیا، جب دیگر باؤلرز موثر ثابت نہیں ہوئے لیکن سری لنکا کے خلاف دونوں مقابلوں میں سعید اجمل جیسے باؤلر کا وکٹوں سے محروم رہنا پاکستان کے لیے تشویشناک بات ہے۔ سعید نے گزشتہ دو سالوں میں پاکستان کے لیے اتنی وکٹیں حاصل کی ہیں کہ اس عرصے میں دیگر باؤلرز کا کردار ثانوی سا لگتا ہے مگر حالیہ سیریز کے دونوں مقابلوں میں سعید اجمل کی ناکامی نے پاکستانی باؤلنگ کی مضبوطی کی قلعی کھول دی ہے۔ یہ باؤلنگ لائن اپ ابوظہبی ٹیسٹ کے ایک دن میں صرف ایک وکٹ حاصل کرسکی اور اب دبئی میں دوسرے دن 261 رنز کے بدلے صرف تین حریف بلے بازوں کو ٹھکانے لگا سکی اور جیسے ابوظہبی میں ایک دن کی ناقص باؤلنگ نے مقابلہ پاکستا ن کی گرفت سے نکال دیا تھا، اب یہاں بھی آثار کچھ ایسے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ سعید اجمل بلاشبہ اس وقت اپنے کیریئر کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔ ٹیسٹ کرکٹ میں پھینکے گئے آخری 76 اوورز میں انہیں وکٹ بھی نہیں ملی اور یہی وجہ ہے کہ پاکستانی باؤلنگ اس سیریز میں بے بسی کی تصویر بنی دکھائی دیتی ہے۔
کہیں ’’ایکس فیکٹر‘‘’’ایکسپائر‘‘ تو نہیں ہورہا ؟ یہ وہ سوال ہے جو اب بڑی شدومد کے ساتھ اٹھ رہا ہے۔ آف اسپن بالنگ کے ’’گرو‘‘ ثقلین مشتاق نے سعید اجمل کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کچھ عرصے کے لیے کرکٹ سے دور ہوجائیں کیونکہ تینوں طرز کی کرکٹ میں مسلسل کھیلنے کی وجہ سے وہ تھکے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ ’’ثقی‘‘ کی نظر میں سعید اجمل آرام کے بعد تازہ دم ہوکر بین الاقوامی کرکٹ میں واپس آئیں، ان میں ابھی بہت کرکٹ باقی ہے اور مزید چند سال وہ قومی ٹیم کی خدمت کرسکتے ہیں۔ ثقلین کا کہنا ہے کہ ’’کپتان وسیم اکرم ہر اوور میں مجھ سے بات کرکے منصوبہ بندی کیا کرتھے، جبکہ مصباح الحق ایسا نہیں کرتے۔‘‘ ویسے اگر سابق آف اسپنر کی بات مان لی جائے کہ سعید اجمل کی ناکامی کے ذمہ دار مصباح ہیں، تو پھر ان کی کامیابیوں کا سہرا بھی کپتان ہی کے سر نہیں باندھنا چاہیے؟
حقیقت یہ ہے کہ سعید اجمل کی حالیہ ناکامیوں کی ذمہ داری کپتان یا کسی اور شخص پر عائد نہیں ہوتی۔ دراصل مسلسل ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی طرز کی کرکٹ کھیلنے کے بعد سعید خود کو ٹیسٹ کرکٹ سے ہم آہنگ نہیں کرپارہے۔ یہی وجہ ہے کہ پانچ روزہ فارمیٹ میں بھی وہ گیند کو فلائٹ دے کر بلے بازوں کو پھانسنے کے بجائے محض رنز روکنے والی باؤلنگ کررہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اجمل کو وکٹیں نہیں مل رہیں۔
اگر سعید اجمل نے جراتمندی کے ساتھ حالات کا سامنا کرکے اپنی باؤلنگ کو فوری طور پر نہ سنبھالا تو ثقلین کی طرح پاکستان کا یہ ’’ایکس فیکٹر‘‘ بھی جلد ’’ایکسپائر‘‘ہوسکتا ہے!!