عالمی کپ میں پاک-بھارت مقابلہ، جوش و خروش عروج پر
کہنے کو تو کرکٹ محض ایک کھیل ہے، لیکن 15 فروری کو عالمی کپ میں پاک-بھارت مقابلے کے منتظر کھلاڑیوں اور دونوں کے کروڑوں پرستاروں کے لیے یہ صرف کھیل نہیں ہے۔
عالمی کپ 2015ء میں گروپ ’بی‘ کے اس مقابلے کے تمام ٹکٹ صرف 20 منٹوں میں فروخت ہوگئے اور اب جبکہ مقابلے کے آغاز میں صرف 11 دن رہ گئے ہیں، شاید ہی دنیا میں کوئی اتنے تناؤ کا شکار ہوگا جتنا کہ اس روز پاکستان اور بھارت کے کھلاڑی اور کروڑوں کرکٹ دیوانے محسوس کریں گے۔
جنوبی ایشیا کے یہ دونوں ممالک جب بھی کرکٹ میدان میں مدمقابل ہوتے ہیں، جذبات عروج پر پہنچ جاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ سیاسی نوعیت کی ہے کیونکہ پاکستان و ہندوستان آزادی کے بعد سے اب تک تین مرتبہ جنگ لڑچکے ہیں اور تنازع کشمیر کی وجہ سے ان کے حالات عموماً کشیدہ ہی رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے اکثر کرکٹ شائقین اس بات کو تو گوارہ کرلیتے ہیں کہ ٹیم عالمی کپ کے اگلے مرحلے تک نہ پہنچے لیکن پڑوسی ملک کے ہاتھوں شکست برداشت نہیں کی جاتی اور اس معاملے میں بھارت خوش نصیب ہے کہ عالمی کپ کی تاریخ میں جب بھی اس کا مقابلہ پاکستان سے ہوا ہے، جیت اس کا مقدر ٹھیری ہے۔
یہ پاک-بھارت رقابت گویا دنیائے کرکٹ کی سرد جنگ ہے کہ جہاں گولیوں کا تبادلہ تو نہیں ہوتا لیکن حالات بالکل جنگ جیسے ہی نظر آتے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے ”رائٹرز“ کے مطابق اپنی تیز رفتاری کے لیے مشہور اور”راولپنڈی ایکسپریس“ کے نام سے معروف گیندباز شعیب اختر نے دہلی میں ایک کرکٹ محفل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ”اکثریت کے لیے یہ مقابلہ عالمی کپ سے بھی بڑا ہوتا ہے اور ایک ارب سے زیادہ افراد کے ذہنوں سے کرکٹ کے سوا سب کچھ محو ہوجاتا ہے۔ ہم عالمی کپ مقابلوں میں کبھی بھارت کو نہیں ہرا پائے ہیں لیکن ان شاء اللہ جلد ہی پاکستان کو جیت نصیب ہوگی۔“
ہربھجن سنگھ کئی پاک بھارت مقابلوں میں بھارت کی نمائندگی کر چکے ہیں بلکہ 2011ء کے عالمی کپ سیمی فائنل میں پاکستان کے خلاف بھارت کی تاریخی جیت کا اہم حصہ تھے۔ ”بھجی “کہتے ہیں کہ ”عالمی کپ سے پہلے سخت ذہنی دباؤ کی وجہ سے کئی راتیں نیند نہیں آئی تھیں۔ مقابلے کے دوران ڈریسنگ روم کا ماحول بہت کشیدہ ہوتا ہے۔ بلکہ میچ سے پہلے ہوٹل کے کمرے میں بھی آپ صرف مقابلے ہی کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں۔ پچھلے عالمی کپ میں پاکستان کے خلاف سیمی فائنل سے پہلے میں پوری رات سو نہیں سکا تھا کیونکہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ اگر ہم ہار گئے تو کیا ہو گا۔ لیکن خوش قسمتی تھی، ہم جیت گئے اور اس کے بعد خوشی سے ساری رات نیند نہیں آئی۔ لیکن اگر ہم ہار جاتے تو ذرائعِ ابلاغ ہمیں بھون ڈالتے اور ہمارے شائقین ہمارے گھر پر سنگ باری کرتے۔ “
2011ء کے عالمی کپ کے لیے بھارت کے دستے میں شامل اسپنر پیوش چاؤلہ نے کہا کہ ”تناؤ محض ٹیم انتظامیہ کی جانب سے ہی نہیں بلکہ باہر سے بھی آتا ہے حتیٰ کہ ہمارے خاندان کے افراد اور دوست بھی ہمیں یہ یاد دلاتے رہتے ہیں کہ یہ پاکستان کے خلاف مقابلہ ہے۔ “انہوں نے مزید کہا کہ ”باؤنڈری کے پاس میدان بازی (فیلڈنگ) کرتے وقت آپ کو پیچھے مجمع سے دھمکیاں آ رہی ہوتی ہیں کہ یہ میچ تمہیں ہر حال میں جیتنا ہے، نہیں تو اسٹیڈیم سے باہر جانا تمہارے لیے آسان نہیں ہو گا۔ “
اب پاکستان اور بھارت کے کھلاڑی اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ساتھ ذہنی برداشت کے بھی امتحان سے گزریں گے اور خوش کن امر یہ ہے کہ دونوں ٹیمیں اپنا پہلا مقابلہ ہی آپس میں کھیل رہی ہیں یعنی جو جیتے گا، اس کے حوصلے بلند ہوجائیں گے اور یہ جیت آئندہ مقابلوں کے لیے محرک ثابت ہوگی۔