چھکوں کی اور اصل بارش، جنوبی افریقہ پھر ہار گیا

0 1,068

انگلستان کے ہاتھوں ٹیسٹ سیریز میں شکست کے بعد خیال تھا کہ جنوبی افریقہ محدود اورز کی کرکٹ میں جوش اور ولولے کے ساتھ میدان میں اترے گی لیکن ایک روزہ سیریز کا پہلا مقابلہ ہی اس کے لیے بڑا امتحان ثابت ہوا۔ باؤلنگ میں وہ دم خم نظر نہیں آیا، بلے بازی میں بھی وہ کارکردگی نہیں دکھائی دی جو اسے شکست سے بچاتی۔ وہ الگ بات کہ فیصلہ کن کردار بارش سے ادا کیا جس کی وجہ سے انگلستان کو ڈک ورتھ-لوئس طریقے کی بنیاد پر 39 رنز سے کامیابی ملی۔

مقابلے کی خاص بات انگلستان کی دھواں دار بلے بازی تھی۔ ٹاس جیت کر ایون مورگن نے پہلے بلّا سنبھالا اور کھلاڑیوں نے 9 وکٹوں پر 399 رنز بنا کر اس فیصلے کو بالکل ٹھیک ثابت کر دیا۔ یہ ایک روزہ کرکٹ میں انگلستان کا دوسرا سب سے بڑا مجموعہ ہے۔ اس سے قبل انگلستان نے جون 2015ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف برمنگھم میں 409 رنز بنائے تھے۔

انگلستان کو اس مقام تک پہنچانے میں سب سے نمایاں کردار وکٹ کیپر جوس بٹلر کا تھا۔ انہوں 73 گیندوں پر طوفانی سنچری بنائی۔ بین اسٹوکس، ایلکس ہیلز اور جو روٹ کی نصف سنچریوں نے بھی اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔

جواب میں جنوبی افریقہ نے ہاشم آملا کی وکٹ کے نقصان کے باوجود وکٹ کیپر کوئنٹن ڈی کوک اور فف دو پلیسی کی بہترین بلے بازی کی وجہ سے میدان سنبھالے رکھا لیکن جیسے جیسے بادل گہرے ہوتے گئے، جنوبی افریقہ کے ہاتھ پیر پھولتے چلے گئے۔ ابتدائی 15 اوورز میں 111 رنز بننے کے بعد ضرورت صرف اتنی تھی کہ ڈک ورتھ پار اسکور پر نظر رکھی جاتی اور وکٹیں بچائی جاتیں لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ فف 55 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے تو ابراہم ڈی ولیئرز آئے۔ اب جنوبی افریقہ کو 20 اوورز کی اہم منزل کا انتظار تھا ڈک ورتھ لوئس طریقہ لاگو ہونے کے لیے کم از کم 20 اوورز کا ہونا ضروری ہے۔ بہرحال، اس اوور میں بین اسٹوکس کی کمال فیلڈنگ نے جنوبی افریقہ کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایک شاٹ جو سیدھا چھکے کے لیے جا رہا تھا انہوں نے جھپٹ لیا اور ڈی ولیئرز کی اننگز کا خاتمہ کرکے جنوبی افریقہ کو سخت مشکل میں ڈال دیا۔ کیونکہ اب بہرحال مقابلے کا نتیجہ آنا تھا کیونکہ جنوبی افریقی اننگز کے 20 اوورز ہو چکے تھے۔ یہاں سوائے کوئنٹن ڈي کوک کے کوئی بلے باز جم نہ سکا یہاں تک کہ 34 ویں اوور میں بارش آ گئی۔ جب جنوبی افریقہ کا مجموعہ پانچ وکٹوں پر 250 رنز تھا جبکہ اسے 290 رنز پر ہونا چاہیے تھا۔ ڈی کوک 96 گیندوں پر 138 رنز کے ساتھ سب سے ناقابل شکست و نمایاں رہے جبکہ ان کے علاوہ صرف فف ہی کوئی نمایاں بلے بازی دکھا سکے۔ بہرحال، انگلستان 39 رنز سے کامیاب و کامران ٹھیرا۔

Quinton-de-Kock

عالمی کپ 2015ء میں ذلت آمیز نتیجے کے بعد انگلستان ایک نئے روپ میں نظر آ رہا ہے، اس نے نیوزی لینڈ اور پاکستان کے خلاف شاندار سیریز جیتیں جبکہ آسٹریلیا کے ہاتھوں بمشکل ہارا۔ عالمی کپ کے بعد کل سات ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں انگلستان نےکامیابی حاصل کی ہے، جن میں سے پانچ تو لگاتار فتوحات ہیں۔ یہ کارکردگي کتنی شاندار رہی اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ابتدائی 645 ایک روزہ مقابلوں میں انگلستان صرف دو بار ہی 350 رنز عبور کرپایا لیکن گزشتہ 15 مقابلوں میں وہ پانچ مرتبہ یہ کارنامہ انجام دے چکا ہے۔

انگلستان کا آغاز ہی دھواں دار تھا۔ جیسن روئے اور ایلکس ہیلز نے آٹھویں اوور تک ہی 68 رنز بنا لیے تھے۔ مورنے مورکل نے روئے کو آؤٹ کیا جو 30 گیندوں پر 48 رنز بنا چکے تھے۔ ان کی جگہ ان فارم جو روٹ آئے جنہوں نے دوسری وکٹ پر مزید 52 رنز کا اضافہ کر ڈالا۔ یہاں مرچنٹ ڈے لانگے نے 57 رنز بنانے والے ہیلز کی اننگز تمام کی۔

انگلستان 18 اوور تک ہی 130 رنز بنا چکا تھا جو لگ بھگ ساڑھے 7 کا رنز اوسط تھا۔ اس موقع پر کپتان ایون مورگن نے خود آنے کے بعد جوس بٹلر کو بھیجا جنہوں نے کمال ہی کردیا۔ کپتان کے فیصلے کو درست ثابت کرتے ہوئے بٹلر نے روٹ کے ساتھ اگلے 13 اوورز میں ہی 97 رنز بنا ڈالے۔ یوں 30 اوورز کے خاتمے پر انگلستان 227 رنز تک پہنچ گیا تھا۔ روٹ 52 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ اب انگلستان کے پاس پورے 20 اوورز تھے، اور 7 وکٹیں بھی۔ بٹلر خطرناک روپ میں کریز پر موجود تھے اور ایون مورگن اور بین اسٹوکس ابھی باقی تھے۔ گوکہ مورگن زیادہ کامیاب نہ ہو سکے، وہ 23 رنز بنا کر عمران طاہر کا شکار ہوئے لیکن بٹلر اور اسٹوکس نے اس کا ازالہ کردیا۔ دونوں نے 7 اوورز میں 61 رنز جوڑے۔ جنوبی افریقہ سخت مشکل میں تھا کہ فرحان بہاردین نے 105 رنز بنانے والے بٹلر کو آؤٹ کردیا۔ انہوں نے صرف 76 گیندیں کھیلیں اور پانچ چھکوں اور 11 چوکوں گا سہارا لیا۔

بٹلر کی کارکردگی پچھلے کچھ عرصے سے بہت ہی شاندار ہے۔ وہ 66 مقابلوں میں چار سنچریاں بنا چکے ہیں اور چاروں 100 سے زیادہ کے اسٹرائیک ریٹ سے۔ پاکستانی تو نومبر 2015ء کی وہ اننگز نہیں بھولے جس میں انہوں نے 46 گیندوں پر سنچری بنائی تھی جو انگلستان کے لیے تیز رفتار ترین سنچری کا نیا ریکراڈ ہے۔ اس کے علاوہ مئی 2014ء میں سری لنکا کے خلاف سنچری 61 گیندوں پر اور اسی سال نیوزی لینڈ کے خلاف 66 گیندوں پر بنائی۔ اسٹوکس کے 38 گیندوں پر 57 رنز کی بدولت انگلستان 399 رنز بنانے میں کامیاب ہوا اور یوں جنوبی افریقہ کو 400 رنز کا ہدف ملا جو اس کے لیے ناقابل عبور ثابت ہوا۔

پہلے ایک روزہ میں شکست جنوبی افریقہ کے لیے اچھی خبر تو نہیں لیکن ڈی کوک کا فارم میں واپس آنا اس کے لیے بہت ہی حوصلہ افزا خبر ہے۔ ان کی 6 چھکوں اور 12 چوکوں سے مزین ناقابل شکست اننگز فاتحانہ تو نہیں بنی لیکن مردِ میدان کا اعزاز ضرور حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ ڈی کوک نے اس اننگز کے دوران ہی اپنے 2 ہزار رنز مکمل کیے حالانکہ اس وقت ان کی عمر صرف 23 سال اور 48 دن ہے۔ یوں وہ ملک کے لیے سب سے کم عمر میں 2 ہزار رنز بنانے والے بلے باز بھی بنے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ 6 فروری کو پورٹ ایلزبتھ میں جنوبی افریقہ کیا کر دکھاتا ہے۔