نیوزی لینڈ کا میک کولم کو شایان شان الوداع، چیپل ہیڈلی ٹرافی جیت لی
2007ء میں آسٹریلیا ہی کے خلاف ہملٹن میں ہونے والے ایک روزہ میں مشکل وقت پر 86 رنز بنا کر 346 رنز کے ہدف کے تعاقب کو یقینی بنانے اور عالمی چیمپئن کے خلاف کلین سویپ مکمل کرنے والے برینڈن میک کولم نے آج ایک اور فیصلہ کن مقابلے میں آسٹریلیا کے خلاف قیادت کی اور اپنی کارکردگی کے ذریعے نہ صرف نیوزی لینڈ کو چیپل-ہیڈلی سیریز جتوائی بلکہ ایک روزہ کرکٹ کو بھی خیرباد کہہ دیا۔
ہملٹن کے اسی میدان پر ہونے والے اس مقابلے کی خاص بات یہی تھی کہ یہ برینڈن میک کولم کا آخری ایک روزہ تھا، جہاں نیوزی لینڈ کو 246 رنز پر محدود کرنے کے بعد یقیناً آسٹریلیا بہت خوش ہوگا لیکن نیوزی لینڈ کے بلے بازوں کا ادھورا چھوڑا ہوا کام گیند بازوں نے مکمل کیا اور آسٹریلوی کو صرف 191 رنز پر ڈھیر کرکے 55 رنز سے مقابلہ جیت لیا۔ یہ کامیابی کھلاڑیوں کی جانب سے میک کولم کے لیے ایک زبردست خراج تحسین ہے۔
نیوزی لینڈ کے لیے یہ فتح کتنی اہم تھی اِس کا اندازہ ان کے جارحانہ آغاز سے ہوجاتا ہے۔ مارٹن گپٹل اور برینڈن میک کولم میدان میں اترتے ہی مخالف باؤلرز پر جھپٹ پڑے۔ صرف نویں اوور میں ہی 80 رنز مکمل کرلیے گئے۔ یہ خطرناک آغاز یقیناً آسٹریلیا کے لیے اچھی خبر نہیں تھی۔ خیر، کم از کم انہوں نے برینڈن میک کولم کی آخری ایک روزہ اننگز ختم کرکے کچھ سکھ کا سانس لیا۔ مچل مارش نے تین چھکے اور 6 چوکے لگا کر صرف 27 گیندوں پر 47 رنز بنانے والے نیوزی لینڈ کے کپتان کو آؤٹ کیا۔ جو تالیوں کی گونج میں آئے تھے اور پورے احترام کے ساتھ آخری اننگز کھیل کر رخصت ہوئے۔
ان فارم کین لویم سن آج اپنے رنگ میں نہيں دکھائی دیے۔ 28 گیندوں پر 18 رنز کی اننگز کی وجہ سے رنز کی رفتار یکدم سست پڑ گئی، پھر وکٹ بھی نہ بچ سکی۔ 123 پر اسکاٹ بولینڈ نے ولیم س نکو چلتا کردیا۔ صرف سات رنز بعد ہی ایڈم زمپا نے 59 رنز بنانے والے گپٹل کو بھی آؤٹ کردیا۔ یوں نیوزی لینڈ کے 131 رنز پر تین وکٹوں سے محروم ہوگیا۔ چونکہ ابھی صرف 20 اوورز کا کھیل ہوا تھا اس لیے نیوزی لینڈ کے بلے بازوں کے پاس خاصے مواقع تھے۔ ہنری نکلس اور گرانٹ ایلیٹ نے بھاری ذمہ داری کا ادراک کا اور بتدریج رنز کو آگے لے جاتے رہے لیکن 171 رنز ان کی باہمی کوشش کی آخری حد ثابت ہوا۔ نکلس 18 رنز بنانے کے بعد جوش ہیزل ووڈ کے سامنے بے بس ہوگئے۔ کوری اینڈرسن بجائے آسٹریلیا کو دباؤ میں لانے کے خود اس کا شکار ہوتے دکھائی دیے۔ ایلیٹ اور اینڈرسن نے گو کہ پانچویں وکٹ پر 49 رنز بنائے لیکن انہوں نے 12 اوورز کھیل لیے۔ اپنے مزاج سے بالکل ہٹ کر اینڈرسن نے 43 گیندوں پر 27 رنز بنائے اور ہیزل ووڈ کا اگلا شکار بن گئے۔ یہ نیوزی لینڈ کی اننگز کی آخری قابل ذکر شراکت داری تھی کیونکہ باقی بلے بازوں سے کچھ نہ ہو سکا۔ صرف 23 رنز کا مزید اضافہ ہو سکا اور پوری ٹیم 46 ویں اوور میں ڈھیر ہوگئی۔ آسٹریلیا کی زبردست باؤلنگ کے سامنے نیوزی لینڈ کی آخری 6 وکٹیں صرف 23 رنز کے اضافے سے گریں۔ مارٹن گپٹل اور میک کولم کی اننگز اور آخر میں گرانٹ ایلیٹ کے 50 رنز کو جوڑا جائے تو کل 156 رنز بنتے ہیں یعنی تین کھلاڑیوں کے 156 اور باقی 7 کے صرف 90 رنز۔ یہ اچھی صورت حال نہیں تھی بہرحال اس کا پورا پورا سہرا آسٹریلیا کے گیندبازوں کو جاتا ہے جن میں سے مچل مارش نے تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ دو، دو وکٹیں جوش ہیزل ووڈ، اسکاٹ بولینڈ اور جان ہیسٹنگز کو ملیں۔
اب اپنے دو اہم گیندبازوں ٹرینٹ بولٹ اور مچل سینٹنر کے بغیر، کہ جو بیماری اور زخمی ہونے کی وجہ سے نہیں کھیلے، نیوزی لینڈ کے لیے بڑا چیلنج تھا اس ہدف کا دفاع کرنا جو بلے بازوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے توقع سے کہیں کم بنا۔ آسٹریلیا کا جواب کرارا تھا۔ صرف 5 اوورز میں ہی 39 رنز بن چکے تھے کہ میٹ ہنری نے میزبان کو مزید پریشان ہونے سے بچا لیا۔ ڈیوڈ وارنر کی قیمتی وکٹ ان کے ہاتھ لگی۔ عثمان خواجہ کے حملے اور اسٹیون اسمتھ کے ساتھ تیز رفتاری سے بنائے گئے 26 رنز اننگز کو بحال کر ہی رہے تھے کہ عثمان کی 36 گیندوں پر 44 رنز کی اننگز ختم ہوگئی۔ 2 چھکوں اور 4 چوکوں سے مزین یہ اننگز آج کھیلنے والے ڈوگ بریسویل نے حاصل کی۔
آسٹریلیا کو تہرے ہندسے میں داخل ہونے سے پہلے ہی دو بڑے دھچکے پہنچے پہلے کپتان اسٹیون اسمتھ آؤٹ ہوئے اور پھر گلین میکس ویل صفر پر ڈھیر ہوگئے۔ یہ دونوں ایش سودھی کے ایک ہی اوور میں میدان سے واپس آئے۔ یوں آج کھیلنے والے بریسویل اور سودھی نے اپنا کام تو دکھا دیا۔
جارج بیلی اور مچل مارش نے ہمت دکھائی اور پانچویں وکٹ پر سنبھل کر بلے بازی شروع کی۔ وہ آسٹریلیا کو 150 رنز کا ہندسہ بھی عبور کرا گئے یعنی اب درکار رنز 100 سے بھی کم ہو چکے تھے اور 6 وکٹیں باقی تھیں۔ آسٹریلیا کی پوزیشن مستحکم تھی کہ اس کے بلے بازوں کے ساتھ ہوا جو تھوڑی دیر بعد نیوزی لینڈ کے ساتھ ہو چکا تھا۔ 153 رنز پر بیلی کی 33 رنز کی اننگز میٹ ہنری کے ہاتھوں مکمل ہوئی اور اس کے بعد کوئی نہ جم سکا۔ لیکن جو تنازع کھڑا ہوا وہ مارش کی اننگز کے خاتمے سے ہوا۔ میٹ ہنری کی گیند پر شاٹ مارنے کی کوشش ناکام ہوئی اور وہ اندرونی کنارہ لیتی ہوئی ان کے جوتے کی طرف گئی اور پھر اچھل کر باؤلر کے ہاتھ میں گئی۔ ہنری کو خود بھی یقین نہیں تھا کہ یہ آؤٹ ہے۔ انہوں نے ایک نیم دلی سے اپیل کی اور امپائر نے اسی کو کافی سمجھا اور تیسرے امپائر کا رخ کیا جنہوں نے طویل غور و خوض کے بعد مارش کو آؤٹ قرار دیا۔ 41 رنز کی اننگز انتہائی متنازع انداز میں مکمل ہوئی اور آسٹریلیا پھر سنبھل نہ سکا۔ اننگز 43 ویں اوور میں صرف 191 رنز پر تمام ہوگئی۔
میٹ ہینری تین وکٹیں لے کے نیوزی لینڈ کے کامیاب ترین گیندباز رہے۔ اینڈرسن اور سودھی نے بھی دو، دو کھلاڑیوں کو واپسی کا راستہ دکھایا۔ ایڈم ملن اور ڈوگ بریسویل کے حصے میں ایک، ایک وکٹ آئی۔
ایش سودھی کو ایک ہی اوور میں میچ کا پانسہ پلٹ دینے پر بہترین کھلاڑی کا اعزاز ملا لیکن اس سے بڑھ کر ٹیم کو خوشی ہوگی برینڈن میک کولم کو شایان شان انداز میں الوداع کہنے کی کہ جو چیپل-ہیڈلی ٹرافی کے ساتھ ایک روزہ کرکٹ سے رخصت ہوگئے اور اب آئندہ دو ٹیسٹ مقابلوں کی سیریز کے ساتھ ہی بین الاقوامی کرکٹ بھی چھوڑ دیں گے۔