سری لنکا نے 17 سال بعد آسٹریلیا کو شکست دے دی

0 1,024

رنگانا ہیراتھ کی شاندار گیندبازی کی بدولت سری لنکا نے پہلے ٹیسٹ میں عالمی نمبر ایک آسٹریلیا کو 106 رنز سے شکست دے دی ہے۔ یہ 1999ء میں کانڈی ٹیسٹ کے بعد کسی بھی مقابلے میں سری لنکا کی آسٹریلیا کے خلاف پہلی کامیابی ہے۔ ہیراتھ نے کیریئر میں 24 ویں مرتبہ اننگز میں پانچ یا زیادہ وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ انجام دیا اور صرف ایک وکٹ کی کمی سے وہ میچ میں 10 وکٹیں حاصل نہ کر سکے۔ آسٹریلیا کے خلاف مسلسل 15 ٹیسٹ میچز میں کامیابی حاصل نہ کر پانے کے بعد یہ فتح تین مقابلوں کی سیریز میں سری لنکا کو ایک-صفر کی شاندار برتری دلائی گئی ہے۔

کانڈی ہی میں واقع نئے پالی کیلے انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ کا آخری دن سنسنی خیز مرحلے میں داخل ہوا جہاں آسٹریلیا کو جیت کے لیے 185 رنز اور سری لنکا کو 7 وکٹوں کی ضرورت تھی۔ یہاں پر بارش نے بھی آنکھ مچولی کا کھیل شروع کیا ہوا تھا اور دن کا آغاز ہی 75 منٹ کی تاخیر سے ہوا۔ ایڈم ووجس اور اسٹیون اسمتھ نے باقاعدہ منصوبہ بندی سے کھیل شروع کیا۔ ووجس پچھلے قدموں پر کھیل پر اسپنرز پر حاوی ہونے کی کوشش کر رہے تھے جبکہ اسمتھ آگے نکل کر تیز گیند بازوں کو جارحانہ جواب دیتے رہے۔ اسی دوران ایک گیند پر ہیراتھ نے اپنی ہی گیند پر ووجس کا کیچ پکڑا لیکن نہ انہوں نے اپیل کی اور نہ ہی وکٹ کیپر نے، صرف پہلی سلپ میں کھڑے کپتان اینجلو میتھیوز تھے جنہیں یقین تھا۔ امپائروں نے تیسرے امپائر سے رجوع کیا اور نتیجہ ووجس کی وکٹ کی صورت میں نکلا۔ وہ 12 رنز پر بجھے ہوئے دل کے ساتھ میدان سے واپس پر مجبور ہوئے۔

اس کے بعد جارحانہ بلے بازی ترک کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ اس کو دیکھتے ہوئے چار کھلاڑی اسمتھ کے بالکل سامنے کھڑے کردیے گئے جس سے کپتان کے شاٹس اور بھی محدود ہوگئے۔ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ پچ مزید دھیمی ہوتی چلی گئی اور بلے بازوں کی مشکل میں اضافہ ہوتا گیا۔ مگر اسمتھ اور آنے والے مچل مارش جگہ تلاش کرکے شاٹس کھیلتے رہے یہاں تک کہ اسمتھ نے کیریئر کی 17 ویں اور میچ کی دوسری نصف سنچری مکمل کرلی۔

اسمتھ-مارش شراکت داری میں عین اس وقت پر جب ایسا لگا کہ آسٹریلیا مقابلے پر گرفت مضبوط کر سکتا ہے، اچانک سری لنکا کے گیند بازوں نے اوپر تلے تین وکٹیں حاصل کر ڈالی۔ ویسے آخری دن بیٹسمینوں کے ساتھ امپائروں کے لیے بھی بہت مشکل ثابت ہوا۔ انہیں کئی فیصلے واپس لینے پڑے۔ جیسا کہ مارش کا ہیراتھ کے ہاتھوں ایل بی ڈبلیو میدان میں موجود امپائر نے تو نہیں دیا لیکن تھرڈ امپائر نے مارش کو پویلین کا راستہ دکھا دیا۔ اسی طرح اسمتھ کو وکٹوں کے پیچھے آؤٹ دے دیا گیا، جو تیسرے امپائر سے رجوع کرنے پر واپس ہوئے۔ لیکن یہ نئی زندگی بھی اسمتھ کے کام نہیں آئی اور ہیراتھ نے انہیں کھانے کے وقفے سے پہلے ہی آؤٹ کردیا۔

یعنی پہلے ہی سیشن میں سری لنکا کی کامیابی یقینی ہو چکی تھی کیونکہ اس کے 7 کھلاڑی صرف 141 رنز پر آؤٹ ہو چکے تھے۔ منزل اب بھی 127 رنز دور تھی۔ وقفے کے بعد نیتھن لیون نوجوان اسپنر لکشن سینڈکن کی ناقابل یقین گیند پر آؤٹ ہوئے۔ آٹھ وکٹیں گرنے کے بعد پیٹر نیول اور اسٹیون او کیف نے طویل مزاحمت کی۔ جو رنز کے اعتبار سے تو بہت ہی سست تھی لیکن گیندیں روک روک کر سری لنکا کو پریشان ضرور کردیا۔ دونوں نے صرف 4 رنز کے اضافے کے لیے29 اوورز سے زیادہ کھیل ڈالے۔178 گیندوں تک جاری اس شراکت داری سے سخت مایوسی پھیلنے لگی کیونکہ وہ ابتدا ہی میں او کیف کی وکٹ حاصل کرچکے تھے لیکن امپائر کے غلط فیصلے اور سری لنکا کے پاس ریویو لینے کا آپشن ختم ہونے کی وجہ سے میچ ہاتھوں سے نکلا جا رہا تھا۔

پھر نئی گیند آئی اور کچھ ہی دیر میں آسٹریلیا کی اننگز تمام ہوگئی۔ پیٹر نیول 115 گیندوں پر 9 رنز بنانے کے بعد دھاننجیا ڈی سلوا کی گیند پر آؤٹ ہوئے اور کچھ دیر بعد ہیراتھ نے او کیف کو بولڈ کرکے مقابلے کو منطقی انجام تک پہنچا دیا۔ او کیف نے 98 گیندوں پر 4 رنز بنائے۔

38 سالہ ہیراتھ نے آسٹریلیا کو پورے مقابلے میں بے بس کیے رکھا اور ایشیا میں اس کی شکستوں کے سلسلے کو دراز تر کردیا۔ یہ ایشیائی سرزمین پر آسٹریلیا کی مسلسل ساتویں شکست تھی۔ اس سے قبل وہ بھارت کے خلاف مسلسل چار اور پاکستان سے دو ٹیسٹ ہار چکا ہے۔

سری لنکا اور آسٹریلیا کے درمیان 1983ء سے لے کر آج تک 27 ٹیسٹ مقابلے کھیلے گئے ہیں جن میں سری لنکا نے صرف دو میں کامیابی حاصل کی ہے۔ 17 مقابلوں میں اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے اس لیے پالی کیلے کی یہ کامیابی بہت ہی تاریخی نوعیت کی ہے۔

آخر میں کوسال مینڈس کو ایک لو-اسکورنگ مقابلے میں 176 رنز کی شاندار اور فیصلہ کن اننگز کھیلنے پر میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز ملا۔ سیریز کا دوسرا مقابلہ 4 اگست سے گال میں شروع ہوگا۔