ناقابل بھروسہ پاکستان 'کلین سویپ' سے بچ گیا

0 1,038

4 ستمبر 2016ء، دنیائے کرکٹ کی نظریں پاک-انگلستان مقابلے پر تھیں۔ شائقینِ انگلستان کی امیدیں اور پاکستانی پرستاروں کے خدشات ایک وائٹ واش کی توقع کر رہے تھے لیکن ناقابلِ بھروسہ پاکستانی کرکٹ ٹیم مقابلے میں واپس آئی، وہ بھی ایسے کہ 300 رنز سے اوپر کا ہدف کامیابی سے حاصل کیا اور انگلستان کو چار وکٹوں سے شکست دے کر وائٹ واش کی ہزیمت سے بچ گئی۔

ہدف کے تعاقب میں پاکستان نے بلے بازی شروع کی تو اظہر علی خود اوپنر کی حیثیت سے میدان میں آئے۔ ان کے ساتھ شرجیل خان تھے جو ایک مرتبہ پھر اچھا آغاز فراہم نہ کرسکے اور پانچویں اوور میں اس وقت 10 رنز بناکر چلتے بنے جب مجموعہ صرف 22 رنز تھا۔ آنے والے بابر اعظم اور کپتان نے 54 رنز کی شراکت قائم کی۔ 76 کے مجموعے پر مارک ووڈ نے تہلکہ مچا دیا۔ انہوں نے اپنے تیسرے اوور میں نہ صرف بابر اعظم کو کلین بولڈ کیا بلکہ ایک گیند بعد ہی اظہر علی کو پویلین کا راستہ دکھا دیا۔ پاکستان سخت مشکلات میں نظر آنے لگا۔ صرف 14 اوورز میں پاکستان تین وکٹیں گنوا چکا تھا اور اسکور بورڈ پر محض 77 رنز موجود تھے۔ واضح لگ رہا تھا کہ اس میچ کا نتیجہ بھی باقی مقابلوں جیسا ہوگا۔

یہاں پر سینئر بلے باز شعیب ملک اور وکٹ کیپر سرفراز احمد نے صورت حال کو سنبھالا اور آہستہ آہستہ پاکستان اننگز کی ڈولتی ہوئی کشتی کو صحیح سمت میں گامزن کردیا۔ چوتھی وکٹ پر 163 رنز کی شراکت داری پاکستان کو 240 رنز تک لے آئی اور پاکستان کو آخری 13 اوورز میں صرف 63 رنز کی ضرورت تھی۔ منزل سامنے نظر آ رہی تھی لیکن پاکستان کا مقابلہ بغیر سنسنی خیزی کے ختم ہو جائے، ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ یہیں پر میچ نے ایک ڈرامائی موڑ لیا، پہلے سرفراز احمد 90 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے اور صرف 16 رنز کے اضافے کے بعد شعیب ملک کی 77 رنز کی اننگز تمام ہوگئی۔ دونوں اپنا پہلا ایک روزہ کھیلنے والے انہی لیام ڈاسن کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے، جن کو کچھ دیر قبل دونوں نے خوب آڑے ہاتھوں لیا تھا۔

جب محض 10 رنز کے اضافے کے بعد محمد نواز لیگ بائے کا رن لینے کے چکر میں وکٹ کیپر کی براہ راست تھرو کا نشانہ بن گئے تو پاکستان کے 266 رنز پر چھ کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔ اب تمام تر ذمہ داری آخری مستند جوڑی محمد رضوان اور عماد وسیم پر تھی۔ جنہوں نے اس فریضے کو خوب نبھایا اور دس گیند پہلے ہی میچ کا فیصلہ کردیا۔ رضوان نے 34 گیندوں پر اتنے ہی رنز بنائے جبکہ عماد نے فاتحانہ چوکے سمیت 16 رنز اسکور کیے۔

قبل ازیں پاکستان نے ٹاس جیت کر حیرت انگیز طور پر انگلستان کو پہلے بلے بازی کی دعوت دی۔ وکٹ اپنی جگہ لیکن ہدف کے تعاقب میں پاکستان کی شہرت کبھی اچھی نہیں رہی۔ بہرحال، پاکستان کو پہلی کامیابی پانچویں اوور میں ملی جب محمد عامر نے ایلکس ہیلز کی اننگز کا خاتمہ کیا۔ 64 رنز تک پہنچتے پہنچتے حسن علی نے جو روٹ کی قیمتی وکٹ بھی حاصل کرلی۔ کپتان ایون مورگن اس وقت عماد وسیم کو انہی کی گیند پر کیچ تھما گغے جب مجموعہ 92 رنز تھا اور 15 اوورز کا کھیل مکمل ہوا تھا۔ یوں پہلا مرحلہ تو پاکستان کے لیے مثبت اشارہ تھا لیکن اوپنر جیسن روئے اس بار ثابت قدمی سے جمے ہوئے تھے۔ ان کا ساتھ دینے کے لیے بین اسٹوکس میدان میں موجود تھے۔ دونوں نے چوتھی وکٹ پر 72 رنز جوڑے اور مقابلے کو پاکستان کی پہنچ سے کہیں دور لے جاتے اگر محمد عامر جیسن روئے کو آؤٹ نہ کر دیتے۔ پھر بھی روئے نے 87 رنز بنائے، جن میں دو چھکے اور 8 چوکے شامل تھے۔

یہ کامیابی حاصل کرنے کے باوجود پانچویں وکٹ کی شراکت داری بھی پاکستان کے لیے خاصی بھاری ثابت ہوئی۔ اسٹوکس نے وکٹ کیپر جانی بیئرسٹو کے ساتھ مل کر مزید 55 رنزکا اضافہ کردیا۔ اس بار کامیابی عمر گل کو ملی جنہوں نے بیئرسٹو کی اننگز 33 رنز پر ختم کی۔ البتہ انگلستان صرف 38 ویں اوور میں 219 رنز پر کھڑا تھا اور پانچ وکٹیں اب بھی باقی تھیں۔ گزشتہ مقابلوں کو دیکھیں تو انگلستان کا واضح ہدف 350 رنز تک پہنچنا نظر آتا تھا۔ یہاں پاکستانی گیندبازوں نے حوصلہ نہیں ہارا اور ہمت دکھائی۔ حسن علی نے بین اسٹوکس کی 75 رنز کی اننگز کا خاتمہ کیا اور پھر کرس ووکس اور ڈیوڈ ولی کو بھی میدان بدر کردیا۔ آخری اوور میں 11 رنز بننے کے باوجود انگلستان محض 302 رنز تک ہی پہنچ سکا۔

حسن علی نے چار اور محمد عامر نے تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور سب سے نمایاں گیندباز رہے۔

آخر میں 90 رنز کی شاندار اننگز کھیلنے پر سرفراز احمد کو میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز ملا جبکہ مین آف دی سیریز انگلستان کے جو روٹ رہے جنہوں نے پانچ مقابلوں میں 274 رنز بنائے جن میں تین سنچریاں شامل تھیں۔ البتہ سیریز مین سب سے زیادہ رنز سرفراز احمد نے بنائے جنہوں نے ایک سنچری اور دو نصف سنچریوں کی مدد سے 300 رنز اسکور کیے البتہ فاتحانہ اننگز کھیلنے کی وجہ سے سیریز کے مرد میدان روٹ قرار پائے۔

ٹیسٹ میں نمبر ایک بننے کے باوجود پاکستان کی ایک روزہ ٹیم سخت مشکلات کا شکار دکھائی دی اور اب بھی نویں نمبر پر ہی موجود ہے۔ ابتدائی چاروں مقابلوں میں’بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے‘ والی صورتحال کاشکار ہونے کے بعد آخری مقابلے میں کامیابی کے باوجود ٹیم کو سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔ پاکستان کرکٹ حلقوں میں اظہر علی کو قیادت سے سبکدوش کرنے کی آوازیں خاصی توانا ہو چکی ہیں۔ دیکھتے ہیں پاکستان کرکٹ بورڈ اس صورتحال سے کیسے نمٹتا ہے۔