یونس خان اور کیا ثابت کریں!

0 1,082

پاکستان کی کرکٹ ٹیم ان دنوں نیوزی لینڈ کے دورے پر ہے۔ جہاں اسے کرائسٹ چرچ اور ہملٹن میں کھیلے گئے دونوں ٹیسٹ میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حسبِ معمول شکست کے آثار نظر آتے ہی پاکستان کے پرنٹ، الیکٹرانک اور خاص کر سوشل میڈیا پر تنقید کا ایک طوفان اُمڈ آیا۔

میچ یا سیریز ہارنے کے بعد اس قسم کی تند و تیز تنقید اب عام سی بات بن چکی ہے۔ جیت کے وقت ’’شاہین‘‘ قرار دیئے جانے والے کھلاڑی شکست کے بعد راندۂ درگاہ ٹھہرتے ہوئے ’’ریت کا ڈھیر‘‘ اور ’’چلے ہوئے کارتوس‘‘ قرار پاتے ہیں۔

پاکستان کی موجودہ ٹیسٹ ٹیم کے تناظر میں بیٹنگ کی ناکامی کا ملبہ سب سے پہلے ٹیم کے سب سے عمر رسیدہ کھلاڑیوں مصباح الحق اور یونس خان پر گرتا ہے۔ ناقدین کی یادداشت سے ان کھلاڑیوں کے ماضی بعید و قریب میں ڈھیروں کے حساب سے بنائے گئے رنز یکلخت محو ہو جاتے ہیں اور محض ان کی بڑھتی ہوئی عمر اور ان کی ریٹائرمنٹ یاد رہتے ہیں۔

بالخصوص یونس خان کو اپنی وقتی ناکامیوں پر طنز و تنقید کے نشتر دوسروں سے کچھ زیادہ ہی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ حالیہ کرائسٹ چرچ ٹیسٹ میں یونس خان پہلی اور دوسری اننگز میں بالترتیب صرف 2 اور ایک رنز جبکہ ہملٹن میں بھی 2 اور 11 رنز بنا ہی بنا سکے۔ جس کے بعد سے ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ کا تعین کرنے کی ذمہ داری ناقدین نے اپنے سر لے لی ہے۔

کامیابی اور ناکامی دونوں ہی کھیل کا لازمی حصہ ہیں تاہم کسی بھی کھلاڑی کے کامیاب یا ناکام ہونے کا حتمی تعیّن کرتے وقت اس کی طویل عرصے تک کی کارکردگی کو سامنے رکھنا چاہیے۔ 2001 میں اپنے ٹیسٹ کریئر کا آغاز کرنے والے یونس خان کے اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ پاکستان کے کامیاب ترین بیٹسمین ہیں۔

مگر ہر کامیاب انسان کی طرح ان کے ناقدین کی بھی کمی نہیں ہے۔ ان ناقدین میں بہت سے سابق پاکستانی کرکٹرز بھی شامل ہیں جو اب تبصرہ نگار بن چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یونس نے اپنے زیادہ تر رنز متحدہ عرب امارات کی بلے بازی کے لیے سازگار پچوں پر بنائے ہیں۔ ان کے مطابق دوسرے ملکوں خاص طور پر آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کی پچوں پر بنائے گئے رنز ہی اصل قدر و قیمت کے حامل ہیں۔

قارئین کی دلچسپی کے لیے موازنہ کے طور پر دنیائے کرکٹ کے عظیم ترین کھلاڑیوں میں سے ایک گردانے والے ڈینس للِی کی مثال سامنے رکھی جا رہی ہے۔ ڈینس للِی کو دنیا بھر میں ٹیسٹ تاریخ کا سب سے مکمل اور بہترین گیند باز سمجھا جاتا ہے۔انہوں نے 70 ٹیسٹ میچز پر مشتمل کریئر میں 355 وکٹ حاصل کیں جو ان کی ریٹائرمنٹ کے وقت سب سے زیادہ ٹیسٹ وکٹوں کا عالمی رکارڈ تھا۔

ڈینس للِی کی بولنگ انتہائی تیز رفتار ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد خطرناک بھی سمجھی جاتی تھی۔ یہی وجہ رہی کہ انہوں نے صرف 56 میچز ہی میں 300 ٹیسٹ وکٹیں مکمل کر لی تھیں جو آج تک ایک ریکارڈ ہے۔ آئی سی سی ہال آف فیم میں شامل ڈینس للِی کو آسٹریلیا والے کسی بھی آل ٹائم ورلڈ الیون کا لازم اور اولین حصہ گردانتے ہیں۔ مگر اس کہانی کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔

’’دنیائے کرکٹ کے سب سے مکمل گیند باز‘‘ کہلانے والے ڈینس للِی نے اپنے 70 میں سے 65 ٹیسٹ صرف آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ میں کھیلے جہاں کی وکٹیں تیز گیند بازی کے لیے انتہائی موزوں سمجھی جاتی ہیں۔ ان 65 میچوں میں انہوں نے 349 وکٹیں حاصل کیں۔ یہ بلاشبہ متاثرکْن اعداد و شمار ہیں مگر ذرا دوسری طرف توجہ فرمائیے، ڈینس للِی نے ایشیاء میں مجموعی طور پر صرف 4 ٹیسٹ کھیلے جن میں وہ 132 گیند فی وکٹ کی اوسط سے محض 6 وکٹ ہی لے پائے۔

مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے ویسٹ انڈیز میں بھی صرف ایک ہی میچ کھیلا جس میں وہ کوئی وکٹ نہیں لے سکے۔ ڈینس للِی 1980 میں 3 میچز کی سیریز کھیلنے پاکستان بھی آئے تھے جس میں انہوں نے 101 کی بھاری بھرکم اوسط اور 204 گیند فی وکٹ کے بدترین اسٹرائیک ریٹ سے صرف تین ہی وکٹس حاصل کی تھیں۔

اس دورے پر ڈینس للِی نے فیصل آباد ٹیسٹ میں وکٹ حاصل کرنے میں ناکامی پر طنزاََ کہا تھا کہ مجھے مرنے کے بعد اس پچ کے نیچے دفن کیا جائے۔ ان کو اپنی مہارت کا عجز نظر نہیں آیا اُلٹا وکٹ پہ طنز کرنے کو مناسب جانا۔ گویا ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔ اسی لیے شاید یہ سمجھنا بھی زیادہ مشکل نہ ہو کہ ڈینس للِی نے کبھی بھی ہندوستان کا دورہ کیوں نہیں کیا جو اپنی اسپن بولنگ کے لیے بنائی گئی پچز کے لیے مشہور ہے۔

غور فرمائیے کہ ڈینس للِی نے اپنی بولنگ کا تمام تر کمال بولنگ کے لیے سازگار وکٹوں پر ہی دکھایا گیا، دیگر ممالک میں وہ جانا ہی گوارہ نہ فرماتے تھے۔ آسٹریلیا والے اور دوسرے ممالک کے مبصرین اور کرکٹ ماہرین پھر بھی ان کو بہترین ہی مانتے ہیں۔

مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے کسی قابل ذکر کمنٹیٹر کے تبصرے یا کرکٹ لکھاری کی تحریر میں ڈینس للِی کی ناسازگار وکٹوں پر خراب ترین کارکردگی کا ذکر سنا یا پڑھا ہو۔ یہاں تک کے ہمارے اپنے پاکستانی کرکٹ مبصرین کو بھی ڈینس للِی کا یہ’’عیب‘‘ نظر نہیں آتا۔ ان کے لیے بھی وہ عظیم ترین ہی ہیں۔ سب مانتے ہیں۔ مگر دیکھ لیجئے کہ ہوم ایڈوانٹیج اور سازگار ماحول میں کھیلنے نے ہی ڈینس للِی کو ’’عظیم‘‘ بنایا۔

آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، انگلینڈ، جنوبی افریقہ وغیرہ کی ٹیمیں ایشیا میں کہیں بھی کھیلنے کو شاید دوسرے درجے کی کرکٹ سمجھتی ہیں کیونکہ یہاں وہ اتنے مؤثر اور کامیاب ثابت نہیں ہو پاتے جتنے وہ اپنے اور وکٹوں کے لحاظ سے اپنے جیسے دوسرے ملکوں میں ہوتے ہیں۔ اس بات کو ان کا میڈیا اور پریس ہمارے سامنے اس انداز سے پیش کرتا ہے کہ ہم اپنے ہوم ایڈوانٹیج کو ناجائز سمجھتے ہوئے شرمندہ شرمندہ نظر آتے ہیں۔

یونس خان نے اپنے شاندار کریئر میں تمام ٹیموں کے خلاف صرف اپنی ہوم وکٹ پر ہی نہیں بلکہ ہر قسم کی وکٹوں اور ہر قسم کے حالات میں بہترین بلکہ اکثر تاریخ ساز کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ رواں سال اگست میں انگلینڈ کے خلاف اوول گراؤنڈ پر 218 کی شاندار اننگز ان کی تازہ ترین مثال ہے جس کے باعث پاکستان ٹیسٹ سیریز کو ڈرا کرنے میں کامیاب ہوا۔ 2015 میں سری لنکا کے خلاف پالی کیلے میں 377 کے تعاقب میں 171 کی داستانوی اننگز کسی نہ کسی کو ابھی بھی ضرور یاد ہو گی۔

یونس خان ٹیسٹ کی چوتھی اننگز میں سب سے زیادہ 5 سنچریز اسکور کرنے والے پہلے اور اب تک واحد بلے باز ہیں۔ یونس خان ٹیسٹ کرکٹ تاریخ کے اب تک کے ان صرف 13 بلے بازوں میں بھی شامل ہیں جنہوں نے دیگر تمام 9 ٹیموں کے خلاف سنچریز اسکور کر رکھی ہیں۔

یونس خان پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ ٹیسٹ رنز بنانے والے، سب سے زیادہ ٹیسٹ اوسط رکھنے والے، سب سے زیادہ ٹیسٹ سنچریز بنانے والے اور سب سے زیادہ ٹیسٹ کیچز پکڑنے والے کھلاڑی ہیں۔ وہ پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ میچوں میں سب سے پہلے دس ہزار رنز بنانے والے کھلاڑی بننے کے بھی بہت قریب ہیں۔ یہ سب کچھ بیان کرنے کا نکتہ یہ ہے کہ اب یونس خان کو مزید کچھ بھی ثابت نہیں کرنا۔ انہوں نے بارہا اور تواتر سے اپنے ہی بنائے ہوئے معیارات کو بلند تر کیا ہے۔ وہ دراصل خود ہی اپنے سب سے بڑے نقاد ہیں۔

ہم پاکستانی کرکٹ سے بے حد محبت کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اپنی ٹیم کو ہارتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے مگر پھر بھی یونس خان سمیت اپنے دیگر کھلاڑیوں کو آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ وغیرہ کے دوروں پر بے جا اور حد سے زیادہ طنز و تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں ہے۔

اس طرح کی تنقید سے اور تو کیا حاصل ہوگا، مگر کھلاڑیوں پر ایک بلاوجہ کا اضافی دباؤ ضرور بن جاتا ہے۔ اس بات کو بری کارکردگی کا دفاع بالکل نہ سمجھا جائے۔ ہارنا غلط نہیں مگر مقابلہ کیے بنا ہار جانا جیسا کہ کرائسٹ چرچ ٹیسٹ میں پاکستانی ٹیم ہار گئی، ضرور غلط ہے۔ مگر ساتھ ہی شائقین کو بھی حوصلے اور شائستگی کا دامن مسلسل تھامے رکھنا چاہیے۔

یہ تحریر پہلے ڈان نیوز پر شائع ہوئی اور اجازت کے بعد کرک نامہ پر پیش کی گئی ہے۔

Younis-Khan