کیا مصباح ساری عمر کھیلتا رہے؟

0 1,050

جہاں منصوبہ بندی کا اتنا فقدان ہو کہ مڈل آرڈر بیٹسمینوں سے اوپننگ کروادی جاتی ہو وہاں تو یہ سوچ بھی نہیں آسکتی کہ کسی کھلاڑی کو مستقبل کے کپتان کے طور پر تیار کیا جائے اور ایک کپتان کے جانے پر قیادت کی منتقلی بہت اچھے طریقے سے عمل میں لائی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ 42سالہ کپتان کے آگے ہاتھ جوڑے جارہے ہیں کہ وہ مزید ایک سے ڈیڑھ سال تک قومی ٹیم کی کپتانی سنبھالے رکھے۔ کیونکہ بیٹسمین کی حیثیت سے تو شاید مصباح کا متبادل مل جائے لیکن کپتان ڈھونڈھنے کے ’’لالے‘‘ پڑے ہوئے ہیں کیونکہ اظہر علی اپنے پہلے امتحان میں کامیاب نہیں ہوسکے جبکہ ون ڈے فارمیٹ میں بھی ا ن کی کپتانی بہت زیادہ متاثر کن نہیں ہے۔اس کے علاوہ ٹی20 کپتان سرفراز احمد کو بھی ابھی اس زمرے میں نہیں کھڑا کیا جاسکتا جہاں آنکھیں بند کرکے وکٹ کیپر بیٹسمین کو ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی سونپ دی جائے۔اس لیے مصباح الحق کو 44سال کی عمر میں بھی ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی کرنا ہوگی۔

مصباح الحق کی عمریا فٹنس یا اُن سے مزید کپتانی کروانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ اگر ایک کھلاڑی فٹ ہے اور پرفارم کررہا ہے تو پھر اس کے کیرئیر کا فیصلہ اُس کی عمر سے نہیں کیا جاسکتا مگر سوال یہ ہے کہ مصباح کا متبادل کپتان ابھی تک تیار کیوں نہیں کیا جاسکا اور اس غلطی کا ازالہ ایسے نہیں کیا جاسکتا کہ ہر سال کے اختتام پر پی سی بی کی جانب سے مصباح الحق کو مزید ایک سال اور کھیلنے کی ’’درخواست‘‘ کردی جائے۔ پی سی بی کے سربراہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’اپنی بہترین فٹنس اور پرفارمنس کی بنیاد پر مصباح الحق چند برس مزید کھیل سکتے ہیں جنہیں ٹیم میں بہت احترام بھی حاصل ہے اور جب تک ان کا بہترین متبادل نہیں مل جاتا انہیں یہ فرض نبھاتے رہنا چاہیے‘‘چیئرمین پی سی بی کے اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصباح کی عدم موجودگی میں نیوزی لینڈ کیخلاف ٹیسٹ میچ میں کپتانی کرنے والے اظہر علی یا پھر ٹی20 کپتان سرفراز احمد چیئرمین پی سی بی کی نظروں میں نہیں جچ رہے اس لیے مصباح الحق سے مزید کھیلنے کی درخواست کی جارہی ہے۔اگر گزشتہ دو تین برسوں میں پی سی بی نے صحیح معنوں میں مستقبل کے کپتان کی ’’افزائش‘‘ کی ہوتی تو آج یہ خطرہ سر پر نہ منڈلا رہا ہوتا کہ مصباح کے جانے کے بعد کون آگے بڑھ کر قومی ٹیم کی قیادت سنبھالے گا۔

اگر گزشتہ چھ برسوں میں مصباح الحق نے کامیاب انداز سے کپتانی کے فرائض سر انجام دیے ہیں اور اس کا سبب وہ برسوں کا تجربہ ہے جو مصباح الحق نے ڈومیسٹک کرکٹ میں مختلف ٹیموں اور پاکستان اے کی کپتانی کرتے ہوئے حاصل کیا تھا۔ اسی لیے مصباح الحق کو انٹرنیشنل کرکٹ میں کپتانی کرتے ہوئے مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ 2010ء میں حالات ایسے ہوگئے تھے کہ مصباح الحق کو مجبوری کے عالم میں ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی سونپی گئی کیونکہ پی سی بی کے پاس کوئی ’’موزوں آپشن‘‘ موجود نہیں تھا۔اُس وقت اگر میرٹ کی بات کی جاتی تو انضمام الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد مصباح کو نہ صرف ٹیم کا حصہ ہونا چاہیے تھا بلکہ ٹیسٹ ٹیم کی قیادت کیلئے بھی مصباح موزوں امیدوار تھا جو ڈومیسٹک کرکٹ میں اپنی اہلیت ثابت کرچکا تھا مگر تین سال کا عرصہ ضائع کرنے کے بعد پاکستان نے مصباح کو کپتان بنایا جس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا ۔ایک عشرہ پہلے بھی پی سی بی نے انضمام الحق کے متبادل کے طور پر کسی کپتان کو ڈومیسٹک کرکٹ میں گروم نہیں کیا اور آج بھی یہی حالات ہیں۔

اظہر علی کو ٹیسٹ ٹیم کا نائب کپتان اس لیے بنا دیا گیا کہ دائیں ہاتھ کے بیٹسمین نے انفرادی طور پر مستقل مزاج کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ جونیئر کرکٹ میں کپتانی کے فرائض سر انجام دینے والے سرفراز احمد کوقومی ٹیم میں دھماکہ خیز واپسی پر کپتانی کا امیدوار بنا دیا گیا۔اب ڈھکے لفظوں میں چیئرمین پی سی بی نے آل راؤنڈر عماد وسیم کو بھی کپتانی کی دوڑ میں شامل کرلیا ہے کیونکہ سابق انڈر19کپتان کی خوبی دباؤ میں پرفارم کرنا ہے مگر دوسری طرف سلیکشن کمیٹی نے عماد وسیم کو ٹیسٹ ٹیم کا حصہ بنانے پر غور نہیں کیا بلکہ محمد نواز کو پانچ روزہ کرکٹ میں ’’ایڈجسٹ‘‘ کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔

اگر ڈومیسٹک کرکٹ کی بات کریں تو پچھلے کچھ سیزنوں میں پشاور سے تعلق رکھنے والے زوہیب خان نے ٹی20فارمیٹ میں اپنی کپتانی سے متاثر کیا تھا جبکہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں بھی زوہیب کو کپتانی کا اچھا خاصہ تجربہ حاصل ہے۔اس کے علاوہ فواد عالم نہ صرف اپنی بیٹنگ پرفارمنس سے سلیکشن کمیٹی کودباؤ میں مبتلا کررہا ہے بلکہ کپتان کی حیثیت سے بھی فواد عالم کو وسیع تجربہ حاصل ہے اور فواد عالم بھی اس وقت کیرئیر کے اُسی موڑ پر کھڑا ہے جہاں 2007ء میں مصباح الحق تھا۔

مصباح الحق کا مزید انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنا پاکستان کرکٹ کیلئے مفید ہے مگر ہر سال مصباح سے ایک سال مزید کھیلنے کی درخواست کرنے کی بجائے پی سی بی کو چاہیے کہ مستقبل کے کپتان کی نشو نما کرے اور اس کیلئے ضروری نہیں ہے کہ انہی کھلاڑیوں کے ناموں کو زیر غور سمجھا جائے جو اس وقت پاکستانی ٹیم کا حصہ ہیں!

Misbah-ul-Haq