نواب منصور علی خان پٹودی چل بسے، عظیم کیریئر پر ایک نظر
ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے کم عمر ترین کپتان بننے کا اعزاز حاصل کرنے والے عظیم بھارتی کھلاڑی منصور علی خان پٹودی اِس دار ِفانی سے کوچ کر گئے۔ ان کی عمر 70 برس تھی اور وہ طویل عرصے سے پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا تھے۔
21 سال کی عمر میں نواب پٹودی نے جب بھارت کی قیادت سنبھالی تو انہوں نے سب سے پہلے ٹیم کے بکھرے ہوئے شیرازے کو اکٹھا کیا اور انہی کی قیادت میں بھارت نے بیرون ملک سرزمین پر پہلی بار فتح کا ذائقہ چکھا۔ نواب کی بہادری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک حادثے میں ان کی دائیں آنکھ ضایع ہو گئی تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے پوری ٹیسٹ کرکٹ اپنی ایک آنکھ کی بینائی کے ساتھ کھیلی اور کیا عمدہ کھیلی۔ 46 ٹیسٹ مقابلوں میں انہوں نے 34.91 کے اوسط سے 2793 رنز بنائے جس میں ایک ناقابل شکست ڈبل سنچری بھی شامل ہے۔
نواب منصور علی خان نے بالی ووڈ کی معروف اداکارہ شرمیلا ٹیگور سے شادی کی جن کے بطن سے ان کا ایک بیٹا سیف علی خان اور دو بیٹیاں سوہا علی خان اور صبا علی خان پیدا ہوئے۔ سیف اور سوہا اب بھی بھارتی فلمی صنعت کے نمایاں ستارے ہیں۔
1963ء میں سرزمینِ غرب الہند میں کالی آندھی کا سامنا کرنے والے ہندوستانی دستے میں منصور بھی شامل تھے اور بارباڈوس ٹیسٹ میں جب بھارتی کپتان ناری کنٹریکٹر زخمی ہو کر ہسپتال سدھارے تو بھارتی ٹیم کی قیادت کی ذمہ داری 21 سالہ منصور کے کندھوں پر آپڑی جسے انہوں نے کیریئر کے آخر تک نبھایا۔ نواب کی زیر قیادت بھارت نے 40 ٹیسٹ میچز کھلے اور حقیقت یہی ہے کہ بھارتی ٹیم میں یہ احساس انہوں ہی نے پیدا کیا کہ وہ بھی جیت سکتی ہے۔ نواب منصور علی خان نے 1967ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف بھارت کو پہلی بیرون ملک کامیابی دلائی۔انہوں نے کرکٹ کے سبھی پنڈتوں کو غلط ثابت کیا کہ تین اسپنرز کے ساتھ کھیلتے ہوئے میچ نہیں جیتا جاسکتا لیکن منصور علی خان نے یہ کر دکھایا۔ سیریز 3-1 کے مارجن سے بھارت کے نام رہی اور یوں نواب پٹودی کا نام ہندوستان کی تاریخ میں امر ہو گیا۔
ان کا بیٹنگ اوسط 34.91 بطور بلے باز ان کی حقیقی حیثیت کی گواہی تو نہیں دیتا مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ بھارتی ٹیم کے چند ایک جارح مزاج بلے بازوں میں سے ایک تھے۔ 1967-68 کے وسط میں میلبورن کے تاریخی میدان میں کھیلی گئی 75 رنز کی طوفانی اننگز آج بھی کرکٹ پنڈتوں کو یاد ہے جب ایک سبز پچ پر بھارت کے پانچ ابتدائی کھلاڑی صرف 25 رنز پر پویلین لوٹ چکے تھے۔ اس ماہرانہ اننگز پر روزنامہ "آبزرور" نے سرخی جمائی تھی کہ "ایک اننگز جو ایک آنکھ اور ایک ٹانگ سے تراشی گئی ہے۔"
ایک آنکھ کی بینائی سے تو وہ پہلے ہی ہاتھ دھو بیٹھے تھے مگر اس دن ان کی ٹانگ بھی پٹھا کھنچ ہو جانے کی وجہ سے جواب دے چکی تھی اور انہیں ایک رنر کی مدد سے میدان میں اترنا پڑا۔ جب پٹوڈی آؤٹ ہوئے تو بھارتی سکور 162 تھا۔اسی سال کرکٹ کی بائبل سمجھے جانے والے جریدے 'وزڈن' نے انہیں سال کے پانچ بہترین کھلاڑیوں میں شامل کیا۔
ریٹائرمنٹ کے بعد 1993ء سے لے کر 1996ء تک انہیں دوبارہ کرکٹ کے میدانوں میں دیکھا گیا جب وہ بطور میچ ریفری 2 ٹیسٹ اور 10 ایک روز مقابلوں میں تعینات ہوئے مگر جلد ہی وہ اس ذمہ داری سے پیچھا چھڑا گئے۔ وہ ایک کرکٹ جریدے کے مدیر بھی رہے اور پھر بھارتی کرکٹ بورڈ کے مشیر بھی۔ انہوں نے بھارتی پریمیر لیگ (آئی پی ایل) کی گورننگ کونسل میں بھی خدمات سرانجام دیں مگر 2010ء میں للت مودی کے جانے کے بعد انہوں نے بھی مزید کام کرنے سے انکار کر دیا۔ اسی سال کے اوائل میں بھارتی کرکٹ بورڈ کے ساتھ کنٹریکٹ تنازعات پر انہیں عدالت جاتے ہوئے بھی دیکھا گیا مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ بھارتی کرکٹ کے شہنشاہ تھے۔ ان کا بھانجا سعد بن جنگ تو بھارتی فرسٹ کلاس کرکٹ میں نظر آیا مگر ان کا بیٹا کرکٹ چھوڑ کر بالی ووڈ کی رنگینیوں میں کھو گیا۔