پاکستان کے نئے کوچ کا فیصلہ کر لیا گیا، اعلان دورۂ بنگلہ دیش کے بعد ہوگا
گزشتہ چند ماہ سے پاکستان کرکٹ بورڈ میں اعلیٰ ترین عہدوں کے لیے تقرریاں ہو رہی ہیں جن میں چیئرمین کی سرفہرست آسامی کے علاوہ دیگر کئی عہدے بھی شامل ہیں تاہم ٹیم کے لیے سب سے اہم معاملہ نئے کوچ کی تقرری ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے کوچ تلاش کمیٹی بھی مقرر کر رکھی ہے جس کا کہنا ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ اور بیٹنگ، باؤلنگ اور فیلڈنگ کے لیے علیحدہ علیحدہ کوچز کی تقرری کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس کا اعلان قومی کرکٹ ٹیم کے جاری دورۂ بنگلہ دیش کے بعد ہوگا۔
پاکستان کے ہیڈ کوچ کا عہدہ گزشتہ پانچ ماہ سے خالی ہے کیونکہ وقار یونس کی صحت کے مسائل کے باعث استعفے کے بعد سے عارضی طور پر چیف سلیکٹر محسن خان کے حوالے کیا گیا تھا۔ جنہوں نے پہلے متحدہ عرب امارات میں سری لنکا کے خلاف اور اب جاری دورۂ بنگلہ دیش میں ذمہ داریاں نبھائی ہیں تاہم پاکستان اگلے ماہ ٹیسٹ کےعالمی نمبر ایک انگلستان کے خلاف اہم ترین سیریز سے قبل ایک کل وقتی اور پیشہ ورانہ کوچ کی تقرری کو مقدم سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امیدواروں پر مشتمل فہرست میں مختلف غیر ملکی نام بھی موجود ہیں اور اندازہ ہے کہ نظر انتخاب ڈیو واٹمور پر ٹھیرے گی جبکہ بیٹنگ، باؤلنگ اور فیلڈنگ کے لیے محسن خان، عاقب جاوید اور جولین فاؤنٹین کو منتخب کیا جائے گا۔ کوچ تلاش کمیٹی کے رکن کرنل (ر) نوشاد علی نے بتایا ہے کہ کمیٹی نے اپنا فیصلہ کر لیا ہے اور منتخب کردہ فرد پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے لیے بہت موزوں ہیں۔ پاکستان نے انگلستان کے خلاف اہم سیریز کے بعد ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیسے ٹورنامنٹس میں شرکت کرنی ہے جہاں ٹیم کی صلاحیتوں کا اصل امتحان ہوگا۔
ڈیو واٹمور اس وقت بھارتی پریمیئر لیگ میں کولکتہ نائٹ رائیڈرز کی کوچنگ کر رہے ہیں اور ماضی میں کئی بین الاقوامی ٹیموں کی کوچنگ کر چکے ہیں جن میں 1996ء کے عالمی کپ کا فاتح سری لنکا بھی شامل ہے۔ وہ 2007ء میں باب وولمر کے انتقال کے بعد پاکستان کی کوچنگ کے امیدوار رہ چکے تھے تاہم بورڈ نے جیف لاسن کو کوچ منتخب کیا تھا۔ لیکن اس مرتبہ کوچ تلاش کمیٹی کے دیگر اراکین انتخاب عالم، ظہیر عباس اور معاون رمیز راجہ بھی ڈیو واٹمور کے نام پر متفق دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ ڈیو واٹمور اپنی سخت گیری کی وجہ سے مشہور ہیں اور ہو سکتا ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم کے چند 'نازک طبع' کھلاڑیوں پر ان کی تقرری گراں گزرے۔
پاکستان میں امن و امان کی ناقص صورتحال کے باعث ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کے عدم انعقاد اور بورڈ کے غیر پیشہ ورانہ رویے کے باوجود پاکستان کی کوچنگ ایک بڑی آسامی ہے اور ماضی میں غیر ملکی کوچز قومی کرکٹ ٹیم خصوصاً کپتانوں کے لیے نسبتاً اچھے ثابت ہوئے ہیں، جس کی مثال رچرڈ پائی بس اور وسیم اکرم، انضمام الحق اور باب وولمر اور جیف لاسن اور شعیب ملک کے درمیان ہونے والی اچھی ہم آہنگی تھی۔ جبکہ اس کے مقابلے میں مقامی کوچ بسا اوقات تنازعات ميں ملوث رہے ہيں جس کی تازہ مثال وقار یونس اور شاہد آفریدی کے درمیان پیدا ہونے والا تناؤ تھا جس کے نتیجے میں شاہد آفریدی کا بین الاقوامی کیریئر ختم ہوتے ہوتے رہ گیا۔
کرک نامہ گزشتہ ماہ اپنے قارئین کو آگاہ کر چکا تھا کہ نئے چیئرمین ذکا اشرف کسی غیر ملکی کو کوچ دیکھنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے بلے بازی، گیند بازی اور فیلڈنگ کے لیے علیحدہ علیحدہ کوچز کی تقرری کا بھی اعلان کیا تھا جس کے لیے بعد ازاں پی سی بی کی ویب سائٹ پر اشتہار بھی جاری کیا گیا۔ اس سلسلے میں کرک نامہ نے بتایا تھا کہ باؤلنگ کوچ کا عہدہ عاقب جاوید اور بیٹنگ کوچ کا عہدہ محسن خان کو مل سکتا ہے۔