صلاحیت اور محنت ... پھر ضائع ہوگئی!

1 1,084

پاکستان سپر لیگ کے ڈرافٹ کی نصف گھنٹہ تاخیر سے شروع ہونے والی طویل تقریب اکتاہٹ طاری کر دینے والی تھی۔ جہاں تقریب کے میزبان نے غلطیوں کے اپنے ہی سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے، وہیں یہ اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں کہ پی ایس ایل کے لیے ’’امپورٹ‘‘ کیے گئے لوگ ابھی تک پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ سے اتنے ناآشنا ہیں کہ انہیں کھلاڑیوں کے نام بھی صحیح طریقے سے لینا نہیں آتے۔ یہ تو بھلا ہو رمیز راجہ کا جنہوں نے اُچھوتے انداز میں مہمانوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس تقریب کو مکمل ’’پھیکا‘‘ ہونے سے بچالیا۔ ڈرافٹ کی سب سے مضحکہ خیز بات یہ تھی جو کھلاڑی ٹیموں نے برقرار رکھے تھے ان کے ناموں کا اعلان کرنے میں بھی پانچ پانچ منٹ کا وقت لیا گیا جس سے تقریب کا دورانیہ بڑھ گیا حالانکہ ان کھلاڑیوں کے ناموں کا اعلان چند دن پہلے تمام فرنچائز ٹیموں نے کردیا تھا۔

پی ایس ایل ڈرافٹ میں پانچ ٹیموں نے مجموعی طور پر 100 کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جن میں سے 31کھلاڑی ایسے ہیں جو پہلی مرتبہ پاکستانی لیگ کا حصہ بنیں گے۔ اگر اس فہرست میں یاسر شاہ کا نام بھی شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد 32 ہوجاتی ہے جو گزشتہ سیزن منتخب ہونے کے باوجود پابندی کی وجہ سے پی ایس ایل میں شرکت نہیں کرسکے تھے۔ ان کھلاڑیوں میں سے 14غیر ملکی ہیں جس کا مطلب ہے کہ 17نئے پاکستانی کھلاڑی اس لیگ کا حصہ بنے ہیں۔

جب ان 17 کھلاڑیوں کے ناموں پر مزید نظر ثانی کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ راحت علی، حارث سہیل اور خرم منظور ایسے نام ہیں جو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرچکے ہیں اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کھلاڑیوں کو ڈومیسٹک کرکٹ کی پرفارمنس کی بنیاد پر منتخب کیا گیا ہے۔ ایمرجنگ اور سپلیمنٹری زمروں میں مجموعی طور پر 30 کھلاڑی منتخب ہوئے ہیں جن میں سے 9 غیر ملکی ہیں اور 8 پاکستانی کھلاڑی ایسے ہیں جنہوں نے گزشتہ سیزن مختلف ٹیموں کی نمائندگی کی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ پی ایس ایل کی پانچ ٹیموں نے 12 نئے اور نوجوان کھلاڑیوں کو ان زمروں میں منتخب کیا ہے جو غلام مدثر، عثمان قادر، سیف بدر، محمد عرفان، ابرار احمد، عبدالامیر، عماد عالم، عرفان خان، خوش دل شاہ، حسان خان، نور ولی اور شاداب خان ہیں جبکہ 28 سالہ راحت علی کو نوجوان کھلاڑی نہیں کہا جاسکتا جو دو فارمیٹس میں پاکستان کی نمائندگی کرچکے ہیں۔

اگر پاکستان ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کرنے والے کھلاڑیوں کو صلہ ملنے کی بات کی جائے تو صرف دو خوش قسمت کھلاڑی ایسے ہیں جو اس ’’اعزاز‘‘ کے مستحق سمجھے گئے اور وہ کھلاڑی پاکستانی ٹیم کے دروازے پر دستک دینے والے اوپننگ بیٹسمین فخر زمان اور قومی ٹی20 میں سعید اجمل کے بعد سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے بائیں ہاتھ کے لیفٹ آرم اسپنر کاشف بھٹی ہیں جنہیں سلور کیٹیگری سے پی ایس ایل کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اس زمرے سے حارث سہیل کا بھی انتخاب ہوا ہے مگر وہ اس سے پہلے انٹرنیشنل سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارمنس دکھانے والے کھلاڑیوں میں صرف دو کو پی ایس ایل کا حصہ بنا کر یہ کہا جارہا ہے کہ یہ لیگ پاکستان میں کرکٹ کے فروغ کا سبب بن رہی ہے!

دوسری جانب دیکھیں تو اعزاز چیمہ نے پہلے سیزن میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی نمائندگی کی اور پلے آف مرحلے میں سنسنی خیز انداز سے اپنی ٹیم کو کامیابی دلوائی۔ پاکستان میں کھیلی جانے والی ٹی20کرکٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والا یہ بالر پی ایس ایل کے اگلے سیزن میں کسی بھی ٹیم کا حصہ نہیں ہوگا جس پر محض افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس مرتبہ امید تھی کہ بائیں ہاتھ کے پیسر صدف حسین کو پی ایس ایل میں شامل کرلیا جائے گا مگر متعدد مرتبہ ڈومیسٹک کرکٹ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے باوجود راولپنڈی کا یہ غیر معمولی بالر فرنچائز ٹیموں کے لیے ’’معمولی‘‘ ہی ثابت ہوا۔

یہی صورتحال فاسٹ بالر محمد عباس کے ساتھ بھی رہی جو مسلسل دو فرسٹ کلاس سیزنوں میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والا بالر ہے۔ رواں سیزن کھیلے گئے قومی ٹی20 کپ میں سلمان بٹ صرف13رنز کے فرق سے دوسرے بہترین بیٹسمین رہے مگر سابق کپتان پر کسی بھی ٹیم کی نظر نہ پڑی اور یہی صورتحال ان کے ’’ساتھی‘‘ محمد آصف کیساتھ بھی رہی۔ حیرت انگیز طور پر ٹی20اسپیشلسٹ ناصر جمشید پہلے سیزن کی طرح دوسرے سیزن میں بھی کسی ٹیم کی آنکھ کا تارا نہ بن سکے۔ قومی ٹی20 اور پھر پاکستان اے کے لیے عمدہ کارکردگی دکھانے والے اوپنر زین عباس اور تجربہ کار فواد عالم کو بھی کسی ٹیم نے اپنے اسکواڈ کا حصہ نہیں بنایا حالانکہ فواد گزشتہ سیزن میں کراچی کی ٹیم کیساتھ تھے۔ اکبرالرحمٰن، طارق ہارون، اویس ضیاء، حماد اعظم ایسے نام ہیں جو ٹی20فارمیٹ میں اپنی اہمیت کاثبوت پیش کرچکے ہیں مگر اس کے باوجود کسی بھی فرنچائز نے ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ کارکردگی دکھانے والے ان کھلاڑیوں پر نظر نہیں ڈالی۔

زیادہ تر فرنچائز ٹیموں نے اپنے کھلاڑی برقرار رکھنے کو ترجیح دی جس میں گزشتہ سال کی فاتح اسلام آباد یونائیٹڈ نے صرف سپلیمنٹری کیٹیگری میں تین ایسے کھلاڑیوں کو شامل کیا ہے جو گزشتہ سیزن اسلام آباد کا حصہ نہیں تھے جبکہ دیگر 17 کھلاڑی ایسے ہیں جنہوں نے پچھلے سیزن میں بھی اسلام آباد کی نمائندگی کی تھی۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹر نے آٹھ نئے کھلاڑیوں کو اسکواڈ کا حصہ بنایا ہے جس میں سے پانچ آخری دو درجہ بندیوں میں شامل ہیں۔ پشاور زلمی کی ٹیم میں سپلیمنٹری کیٹیگری کے چار نئے کھلاڑیوں کے علاوہ حارث سہیل اور ایون مورگن نے اس ٹیم میں شمولیت اختیار کی ہے۔ کراچی کنگز نے پہلے چار زمروں میں چار نئے کھلاڑی اپنے اسکواڈ میں شامل کیے ہیں جبکہ ایمرجنگ اور سپلیمنٹری کیٹیگری میں پانچ کھلاڑی کراچی کی ٹیم کا حصہ بنے ہیں۔ لاہور قلندرز نے ڈرافٹ میں پہلی باری ملنے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے چار زمروں میں چار اور آخری دو کیٹیگریز میں بھی چار کھلاڑیوں کا انتخاب کیا ہے۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو زیادہ تر ٹیموں نے بڑے ناموں پر بھروسہ کرتے ہوئے ’’محفوظ انتخاب‘‘ کیا ہے یا پھر سپلیمنٹری کیٹیگری میں سرپرائز دینے کی کوشش میں کچھ ایسے نوجوانوں کو اسکواڈز کا حصہ بنایا ہے جو تجربے سے عاری ہیں اور ان کی صلاحیتوں کا درست اندازہ بھی پی ایس ایل کے دوسرے ایڈیشن میں ہوگا۔

ڈرافٹ کی اس تقریب کے بعد پھر وہی سوال اُٹھتا ہے کہ کیا پاکستان کرکٹ بورڈ کی دلچسپی کا سامان صرف ٹی 20 کرکٹ ہے ؟ کیونکہ پی ایس ایل میں منتخب ہونے والے چند نوجوان کھلاڑیوں کے دن تو پھر جائیں گے مگر ان باصلاحیت اور محنتی کھلاڑیوں کا کیا ہوگا جنہیں ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود پی ایس ایل سے حاصل ہونے والی شہرت اور دولت سے دور رکھتے ہوئے مایوسی کا شکار کیا جارہا ہے۔ اس کا جواب فرنچائز ٹیموں کے تھنک ٹینک میں موجود افراد کو دینا ہوگا جن کی اکثریت پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ سے واقف نہیں ہے!

Aqib-Javed-Brendon-McCullum