پاکستان فالو-آن پر مجبور کیوں نہیں کرتا؟

1 1,104

جیت اگرچہ جیت ہوتی ہے، لیکن بھاری فرق کے ساتھ کامیابی حاصل کرنے کا سواد ہی الگ ہے۔ ایک روزہ مقابلوں میں جہاں 100 یا اس سے زیادہ کے فرق سے جیتنے کو بھاری کامیابی سمجھا جاتا ہے، وہیں ٹیسٹ میں ڈیڑھ سے دو سو رنز سے حریف کو شکست دینا ایسا ہے جیسا آپ نے حریف کو کچل کر رکھ دیا۔ لیکن ٹیسٹ میں جو لطف ایک اننگز سے حاصل کرنے کا ہے، اسے کھلاڑی ہی نہیں بلکہ ہم وطن بھی محسوس کرتے ہیں۔ یہ ایک واضح برتری کی نشانی ہوتی ہے کہ مخالف دو باریاں کھیل کر بھی آپ کی ایک باری کا مقابلہ نہیں کر سکا۔

ابوظہبی میں جاری ٹیسٹ کے دوران پاکستان نے پہلی اننگز میں 452 رنز کے جواب میں ویسٹ انڈیز کو صرف 224 رنز تک محدود کردیا۔ یعنی ایک مرتبہ پھر پاکستان کے پاس فالو-آن کرنے کا اختیار تھا یعنی ویسٹ انڈیز کو ایک مرتبہ پھر بلے بازی کی دعوت دی جا سکتی تھی لیکن 'ہمیشہ کی طرح' پاکستانی کپتان مصباح الحق نے ایسا نہیں کیا۔ ایسا غیر متوقع نہیں تھا کیونکہ یہ پہلی بار نہیں تھا کہ انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہو۔ ابھی سیریز کے پہلے ٹیسٹ میں بھی پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو فالو-آن پر مجبور نہیں کیا تھا۔

مصباح الحق کی کپتانی میں پاکستان کو پانچ ایسے مواقع ملے ہیں جب حریف کو فالو-آن پر مجبور کرنے کا اختیار ملا لیکن قائد نے ایک بار بھی اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن کیوں؟ کیا یہ مصباح کی دفاعی حکمت عملی کا نتیجہ ہے؟ بعض حلقے ایسا ہی کہتے ہیں۔ ناقدین کے مطابق پاکستان ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے ہمیشہ کمزور رہا ہے اور اسے حاصل کرنے میں ناکامی کا خوف ہی پاکستان کو دفاعی حکمتِ عملی اپنانے پر مجبور کرتا ہے۔

ٹیسٹ میں ہر گزرتے سیشن کے ساتھ وکٹ خراب ہوتی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ چوتھی اننگز میں وکٹیں گرنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا فتح کو شکست میں بدلنے کا خطرہ مول لینے کی بجائے پاکستانی کپتان دوبارہ بلے بازی کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ چوتھی اننگز مخالف ٹیم ہی کو کھیلنی پڑے۔

یہی وجہ ہے کہ جارحانہ کھیل کے شوقین افراد فالو-آن نہ کرنے کے فیصلے سے ناخوش نظر آتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ماضی کے عظیم کپتان کبھی فالو-آن کو نظر انداز نہیں کیا کرتے تھے۔ عمران خان ہی کی مثال لے لیجیے، انھیں بھی اپنے دورِ قیادت میں مخالف ٹیم کو پانچ بار فالو آن پر مجبور کرنے کا اختیار ملا اور انھوں نے ہر بار اس کا فائدہ اٹھایا۔

لیکن اس فیصلے کا ایک دوسرا ممکنہ رخ بھی ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ کرکٹ کے کھیل میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں۔ انھی میں سے ایک تبدیلی اس کا تیز رفتار ہونا ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو کئی سال پہلے بیشتر پانچ روزہ ٹیسٹ مقابلے درحقیقت چھ دنوں پر مشتمل ہوتے تھے۔ عموماً تیسرے دن کے بعد ایک دن کھلاڑیوں کے آرام کے لیے مختص ہوتا تھا۔ مقابلوں کو جلد سے جلد فیصلہ کن بنانے اور انجام تک پہنچانے کے لیے اب یہ ایک دن کا آرام قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔ اس لیے پہلی اننگز میں خون پسینہ ایک کرنے کے بعد گیند بازوں کے لیے فوراً ہی دوسری اننگز کے لیے میدان میں اترنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اگر تھکن کی وجہ سے دوسری اننگز میں گیند بازوں کی میچ پر گرفت ہلکی پڑ گئی تو حریف ٹیم بازی پلٹ بھی سکتی ہے۔

چونکہ آسٹریلیا کو جارحانہ کرکٹ کھیلنے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ جب بھی جارحانہ کرکٹ کی بات ہوتی ہے تو اس کی مثال بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہے، تو اب اسی کی مثال لیجیے۔ گزشتہ تقریباً ایک دہائی میں آسٹریلیا کو 17 بار موقع ملا کہ وہ مخالف ٹیم کو فالو-آن پر مجبور کرے لیکن اس نے صرف پانچ ہی بار ایسا کیا، جبکہ 12 بار خود بلے بازی کو ترجیح دی۔ پھر جہاں آسٹریلیا نے فالو-آن کیا، وہاں بھی موسمی حالات ایسے تھے کہ بارش ہونے اور آخری دنوں کا میچ متاثر ہونے کا خدشہ تھا۔ امارات کے میدانوں میں تو ایسا کوئی معاملہ ہی نہیں۔

آخرکار معنی تو جیت رکھتی ہے تو یہ حقیقت ہی کافی ہے کہ کپتان مصباح الحق نے جن پانچ میچوں میں فالو-آن نہ کرنے کا فیصلہ کیا، وہ تمام میچ انھوں نے ہی جیتے۔ حتیٰ کہ اسی حکمتِ عملی سے دو دہائیوں بعد آسٹریلیا کے خلاف سیریز جیتنے میں مدد ملی۔ جب 2014ء میں ان سے پوچھا گیا کہ انھوں نے آسٹریلیا کو فالو-آن پر مجبور کیوں نہیں کیا، تو انھوں نے بڑی صاف گوئی سے جواب دیا:

’’فالو آن ایسے ہی مواقع پر کیا جانا چاہیے جہاں وقت کا مسئلہ ہو یا بہت ضروری ہو۔ بصورتِ دیگر فالو آن پر مجبور کرنے کا مطلب مخالف ٹیم کو مقابلے میں دوبارہ لوٹ آنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ میرا خیال نہیں کہ کوئی بات اس سے زیادہ احمقانہ ہوسکتی ہے۔ خاص کر جب آپ کو معلوم ہو کہ ہر دن پچ مزید برباد ہوتی چلی جائے گی۔ اور نہ ہی یہاں کا موسم انگلستان جیسا ہے کہ بارش ہونے والی ہو۔ تو بھلا کوئی کیوں فالو آن کرے گا؟‘‘

تو بتائیں ان دلائل کے بعد آپ کی کیا رائے بنی؟