کرکٹ کی ’دیوار‘ گر گئی، ڈریوڈ نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا
راہول ڈریوڈ نے آج بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا اور یوں ایک مثال قائم کرتے ہوئے کھیل کا دامن چھوڑ گئے۔
بنگلور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے راہول نے کہا کہ یہ آسان فیصلہ نہ تھا لیکن وہ اس پر مطمئن ہیں کیونکہ اب وقت آ چکا ہے کہ نئی نسل کو آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے۔ اس موقع پر بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کے صدر این سری نواسن اور ڈریوڈ کے ساتھی سابق کھلاڑی انیل کمبلے بھی موجود تھے۔
بلاشبہ اس اعلان کے ساتھ ڈریوڈ نے اپنے ساتھی ’بزرگ‘ کھلاڑیوں سچن تنڈولکر اور وی وی ایس لکشمن کے لیے ایک مثال قائم کر دی ہے کہ وہ بھی انہی کے قدموں پر چلتے ہوئے دنیائے کرکٹ سے باعزت رخصت ہو جائیں۔
گو کہ ڈریوڈ کا یہ اعلان آسٹریلیا کے مایوس کن دورے کے بعد سامنے آیا ہے لیکن انہوں نے جاتے جاتے 2011ء میں بھرپور کرکٹ کھیلی اور بیرون ملک ویسٹ انڈیز اور انگلستان میں بھی سنچریاں اسکور کیں۔ انگلستان کے حوصلہ شکن دورے میں انہوں نے ٹیم کے دیگر اراکین کے مقابلے میں سب سے اعلیٰ کارکردگی دکھائی اور تین سنچریوں کی بدولت 461 رنز بنائے لیکن حالیہ دورۂ آسٹریلیا میں وہ اس کارکردگی کو نہ دہرا پائے اور بالآخر ریٹائر ہونے کا اعلان کر کے اس قضیے کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔
البتہ راہول انڈین پریمیئر لیگ میں حصہ لیں گے، جہاں رواں سال وہ راجستھان رائلز کی قیادت کریں گے۔
1996ء میں لارڈز کے تاریخی میدان میں انگلستان کے خلاف اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے راہول نے 16 سال دنیائے کرکٹ پر حکمرانی کی۔ انہیں وکٹ بچانے کی صلاحیت کے پیش نظر ’دیوار‘ (The Wall) کہا گیا۔ وہ 13 ہزار 288 رنز کے ساتھ سب سے زیادہ ٹیسٹ رنز بنانے والے بلے بازوں میں دوسرے نمبر پر ہیں ۔ اس میں 36 یادگار سنچریاں بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں وہ ٹیسٹ میں سب سے زیادہ یعنی 210 کیچ پکڑنے کے ریکارڈ کے بھی حامل ہیں۔ گو کہ ان کا ایک روزہ کیریئر نسبتاً کم نمایاں رہا لیکن اس کے باوجود وہ 10 ہزار رنز سمیٹنے میں کامیاب رہے۔
اسے ڈریوڈ کی خوش قسمتی کہیے یا بدقسمتی کہ وہ اس دور میں بھارت کی نمائندگی کرتے رہے جب ملک بلکہ دنیا کی تاریخ کے چند بہترین بلے باز اُن کے ساتھی تھے۔ سچن اور لکشمن کے علاوہ سارو گانگولی اور وریندر سہواگ پر مشتمل بیٹنگ لائن اپ نے جہاں ایک جانب اُن کی صلاحیتوں کو مزید جلا بھی بخشی، وہیں وہ ٹیم میں رہتے ہوئے وہ مقام حاصل نہ کر پائے جس کے وہ حقدار تھے۔ بہرحال، انہیں ٹیم کی قیادت کا موقع بھی ملا اور وہ ملے جلے نتائج دے پائے۔ 25 ٹیسٹ مقابلوں میں انہوں نے آٹھ فتوحات سمیٹیں اور چھ مرتبہ شکست کھائی جس میں 2004ء میں پاکستان میں جیتی گئی سیریز سب سے یادگار ہوگی۔
آئیے، اس عظیم بلے باز کو خراج تحسین پیش کریں،جو شاید تکنیک کے اعتبار سے عہد جدید کا واحد مکمل ترین ٹیسٹ بلے باز تھا۔