بھارت کے سید کرمانی پاکستانی وکٹ کیپرز کی کوچنگ کے خواہاں

0 1,033

دو غیر ملکی کوچز، ڈیو واٹمور اور جولین فاؤنٹین کی تعیناتی اور پھر ممکنہ غیر ملکی باؤلنگ کوچ کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان سابق غیر ملکی کھلاڑیوں کے لیے بحیثیت کوچ خدمات انجام دینے کے لیے ایک پرکشش انتخاب بن گیا۔ پڑوسی ملک بھارت سے تعلق رکھنے والے معروف وکٹ کیپر سید کرمانی نے پاکستان کے وکٹ کیپرز کی تربیت میں اپنی دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان انہیں اس سلسلے میں کوئی پیشکش کرتا ہے تو وہ اسے رد نہیں کریں گے۔

پاکستانی وکٹ کیپرز کی غلطیاں سدھار کر خوشی ہوگی: سید کرمانی (تصویر: Getty Images)
پاکستانی وکٹ کیپرز کی غلطیاں سدھار کر خوشی ہوگی: سید کرمانی (تصویر: Getty Images)

اپنے بھتیجے کی شادی میں شرکت کے لیے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے سید مجتبی حسین کرمانی نے کرک نامہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ میں نے اس زمانے میں وکٹوں کے پیچھے ذمہ داری سنبھالی ہے جب دنیا کے بہترین اسپنرز ہماری ٹیم میں شامل تھے، اس لیے وکٹ کیپنگ کی باریکیوں میں سمجھتا ہوں اور مجھے خوشی ہوگی کہ میں پاکستان کے وکٹ کیپرز کی غلطیوں کو سدھار سکوں۔ اس سلسلے میں ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کرکٹ بورڈ میری خدمات طویل عرصے تک حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں تب بھی میں محدود عرصے کے لیے بھی پاکستانی وکٹ کیپرز کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہوں۔

88 ٹیسٹ اور 49 ایک روزہ بین الاقوامی مقابلوں میں بھارت کی نمائندگی کرنے والے سید کرمانی کا کہنا تھا کہ گو کہ پاکستان کے وسیم باری دنیا کے بہترین وکٹ کیپرز میں شامل ہیں، لیکن بعض دفعہ تبدیلی زیادہ بہتر کام کردیتی ہے، اور کیونکہ میں پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے نیا ہوں گا اس لیے شاید ان کی زیادہ بہتر انداز میں تربیت کرسکوں۔

کرمانی نے اپنے دور کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک وقت تھا جب دنیائے کرکٹ میں میرا اور وسیم باری کا طوطی بولتا تھا، تاہم یہ اب گزرے دنوں کی یادیں ہیں، لیکن آج بھی میرے ذہن میں بالکل ایسے تازہ ہیں جیسے کل ہی کی بات ہو۔

وکٹوں کے پیچھے وکٹ کیپرز کے شور مچانے کے حوالے سے ایک سوال پر کرمانی نے ہنستے ہوئے کہا کہ یہ مجھے بالکل پسند نہیں ہے، ایک دفعہ اپنی ٹیم کی جانب سے مجھے ہدایت ملی کہ حریف ٹیم پر دباؤ ڈالنے کے لیے اپیل کیا کریں، تو میں نے ایسا کرنے سے یکسر انکار کر دیا اور کہا کہ یہ میرا کام نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس وقت کی کرکٹ میں وکٹ کیپرز کی زیادہ تر اپیلیں کامیاب ثابت ہوتی تھیں، انہیں رد نہیں کیا جاتا تھا اب جدید طرز کی کرکٹ میں شاید چند وکٹ کیپرز نے اسے اپنے وطیرہ بنالیا ہے۔ بہرحال شور مچانے سے زیادہ توجہ گیند کو دستانوں میں تھامنے اور بلے باز کو اسٹمپ کرنے پر ہونی چاہیے۔

پاکستان کے دورے پر بہت محتاط رویہ اپنائے ہوئے سید حسین کرمانی پاک-بھارت مقابلوں کے انعقاد کے حق میں تو تھے تاہم اس بارے میں کوئی بیان دینے سے گریز کیا اور بہت استفسار پر صرف اتنا کہا کہ یہ کھیل دونوں ممالک کی عوام کو مزید قریب لا سکتا ہے، اس لیے جلد از جلد شروع ہوجانا چاہیے۔ انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) میں پاکستانی کرکٹرز کی عدم شمولیت کو بھی انہوں نے بھارتی کرکٹ بورڈ کی پالیسی قرار دیتے ہوئے اس پر تبصرہ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی ضرور ہونی چاہیے، یہاں کے عوام بھی کرکٹ سے اتنا ہی پیار کرتے ہیں جتنا کہ بھارت کے عوام۔ ایشیائی کرکٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہماری کرکٹ کا عجیب المیہ ہے کہ ہوم گراؤنڈز پر ہمارے کھلاڑی بہت اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں لیکن جیسے ہی ایشیائی سرزمین سے باہر نکلتے ہیں، انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کی سادہ سی وجہ برصغیر کی بلے بازی کے لیے سازگار وکٹیں ہیں۔ اس لیے یہاں بھی دبئی میں موجود انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی گلوبل اکیڈمی جیسی وکٹیں بنانی چاہئیں، جو تیز باؤلرز کو بھی مدد دیں اور ایشیائی بلے باز ان وکٹوں پر بھی طویل اننگز کھیلنے کا ہنر حاصل کرسکیں۔

بھارت کے عظیم بیٹسمینوں راہول ڈریوڈ اور سچن تنڈولکر کے حوالے سے کرمانی نے کہا کہ سچن تنڈولکر ، راہول ڈریوڈ ، وی وی ایس لکشمن اور وریندر سہواگ ان دنوں انتہائی برے وقت سے گزر رہے ہیں۔ راہول نے بہتر سمجھا ہوگا تب ہی ریٹائرمنٹ لے لی تاہم سچن عظیم کھلاڑی ہے، اس نے کرکٹ کے ریکارڈز کے انبار لگارکھے ہیں اس سے ریٹائرمنٹ کا مطالبہ کرنا زیادتی ہوگی، اور مجھے امید ہے کہ وہ جلد فارم میں آکر مزید ریکارڈز بنائے گا۔