کپتانی کے پیچھے بھاگنے والا آدمی نہیں ہوں: محمد یوسف

1 1,046

ٹیسٹ میں 52 اور ایک روزہ میں 41 کے شاندار اوسط اور 39 سنچریوں اور 97 نصف سنچریاں، یہ زبردست اعداد و شمار ہیں محمد یوسف کے۔ پاکستان کے آخری ورلڈ کلاس بلے باز جن کے بعد سے پاکستان کی بلے بازی کے ساتھ ’با اعتبار‘ کا نام لگانا کچھ مناسب نہیں رہا۔ ان کا کیریئر کرکٹ بورڈ کے ساتھ تنازعات، قیادت کے مسائل، دیگر جھگڑوں، ریٹائرمنٹ کے اعلانات اور پھر واپس لینے جیسے واقعات نے ان کے شاندار کیریئر کو دھندلا دیا۔

محمد یوسف نے آخری مرتبہ لارڈز کے بدنام زمانہ ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی (تصویر: AFP)
محمد یوسف نے آخری مرتبہ لارڈز کے بدنام زمانہ ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی (تصویر: AFP)

یہ وہی محمد یوسف ہیں جنہوں نے 2006ء میں کلینڈر ایئر میں سب سے زیادہ ٹیسٹ رنز بنانے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ 2009-10ء کے تباہ کن دورۂ آسٹریلیا کے بعد وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے پابندی کا شکار ہو گئے۔ جس کے بعد یوسف نے تمام اقسام کی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا لیکن اسی سال کے وسط میں دورۂ انگلستان میں پہلے ٹیسٹ میں بدترین کارکردگی کے بعد یوسف کو واپس بلایا گیا اور اس کے بعد مختصر عرصے کے لیے انہوں نے قومی ٹیم کے لیے خدمات انجام دیں اور نومبر 2010ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف متحدہ عرب امارات میں انہوں نے ایک روزہ مقابلے کی صورت میں اپنا آخری بین الاقوامی میچ کھیلا۔

اس وقت برطانیہ میں موجود محمد یوسف نے معروف کرکٹ ویب سائٹ پاک پیشن کو ایک انٹرویو دیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ کبھی بھی قیادت کی خواہش نہیں رکھتے تھے۔ میں کپتانی کے پیچھے بھاگنے والا شخص نہیں ہوں بلکہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق بہترین کھیل پیش کرنے کا خواہاں رہا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ جسمانی طور پر میں مکمل فٹ اور ذہنی طور پر تو اس سے بھی بہتر ہوں۔ میں پاکستان کی جانب سے کھیلنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہوں، اور یہ سلیکٹرز پر منحصر ہے کہ مجھے منتخب کریں۔ پاکستان کے لیے کھیلنے کی خواہش میں اب بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ برطانیہ آمد سے قبول میں لاہور میں تھا جہاں میں نے نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں فٹنس ٹیسٹ دیا اور اسے پاس بھی کیا۔ مجھے یقین ہے کہ مجھے سلیکٹرز کی جانب سے ایک اور موقع دیاگیا تو میں انہیں مایوس نہیں کروں گا۔

محمد یوسف نے کہا کہ دنیا بھر کے میدانوں میں انہیں اپنا ہوم گراؤنڈ یعنی لاہور کا قذافی اسٹیڈیم پسند ہے۔ کیونکہ یہ ان کے لیے خوشگوار یادوں کا حامل ہے اور اس میدان پر انہوں نے چند یادگار اننگز کھیلیں۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ لارڈز کا میدان انہیں بہت پسند ہے۔ یہ کرکٹ کا گھر ہے اور یہاں میدان میں قدم رکھتے ہی الگ ہی احساسات جنم لیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اپنے کیریئر میں میں نے آسٹریلیا کو سب سے سخت ٹیم سمجھا ہے۔ کسی بھی طرز کی کرکٹ میں وہ آپ کو رتی برابر بھی موقع نہیں دیتےاور بلاشبہ بہت مشکل حریف ہیں۔ گو کہ باؤلنگ کے شعبے میں اب وہ کچھ کمزور ہیں کیونکہ شین وارن اور گلین میک گرا جیسے باؤلرز کا متبادل ملنا ناممکن تھا۔ موجودہ ٹیم میک گرا اور وارن کی سطح کا عشر عشیر بھی نہیں ہے جو اس وقت تمام طر ز کی کرکٹ میں ٹیم کی کارکردگی کو ٹھیس پہنچا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گو کہ بھارت روایتی حریف ہے اور ان کے خلاف کھیلتے ہوئے الگ ہی احساس ہوتا ہے لیکن آسٹریلیا سخت ترین حریف رہا ہے۔

2010ء کے بدنام زمانہ سڈنی ٹیسٹ کی تلخ یادیں تازہ کرتے ہوئے یوسف کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا کا مقابلہ کرنا اور سڈنی کے میدان میں انہیں اننگز کی شکست کے دہانے پر لا کھڑا کرنا اپنی نہاد میں خود بڑی کامیابی تھی۔ جیت اور ہار کھیل کا حصہ ہے اور شائقین اور ذرائع ابلاغ کو ہمیں سراہنا چاہیے تھا کہ پہلی بار کوئی پاکستانی ٹیم آسٹریلیا کو اس کے میدان میں اس حد تک مجبور کرنے میں کامیاب ہوئی کہ وہ اننگز کی شکست سے دوچار ہو رہا تھا۔ ہماری ٹیم اس وقت آسٹریلیا کے مقابلے میں کافی کمزور تھی۔ ہمارا باؤلنگ اٹیک تو اچھا تھا لیکن بیٹنگ لائن اپ بہت ناتجربہ کیا۔ پوری ٹیم میں صرف میں تجربہ کار بلے باز تھا۔ اور سڈنی میں ٹیسٹ ہارنے کے باوجود میرے خیال میں ہم نے بہت اچھی کارکردگی دکھائی۔ شائقین اور ذرائع ابلاغ کو صرف حتمی نتیجے کے بجائے دیگر تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر بات کرنی چاہیے تھی کہ ایک بہت ناتجربہ کار ٹیم آسٹریلیا کے خلاف اچھی کارکردگی دکھائی۔ ہمارے ارادے فتح کے تھے لیکن ہم ہار گئے، یہ کھیل کا حصہ ہے۔ فیلڈنگ میں اچھے اور برے دن آتے ہیں، کوئی بھی جان بوجھ کر غلطی نہیں کرتا اور سڈنی ٹیسٹ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ 1999ء میں آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کا میچ دیکھیں، ہرشل گبز نے جان بوجھ کر اسٹیو واہ کا کیچ نہیں چھوڑا تھا لیکن جنوبی افریقہ ہار گیا۔

شین وارن اور مرلی دھرن کے تقابل کے بارے میں سوال پر محمد یوسف کا کہنا تھا کہ ان دونوں کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ وارن الگ سطح کے اسپنر تھے لیکن ان کے پائے کا میں نے ایک ہی اسپنر دیکھا ہے وہ تھا پاکستان کا ثقلین مشتاق۔ ریکارڈز اور اعداد و شمار کو ایک طرف رکھیں تو میں وارن، مرلی اور ثقلین کے خلاف کھیلنے کے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئےوارن کو پہلا درجہ دوں گا اور اس کے بعد ثقلین کو۔

محمد یوسف نجی دورے پر انگلستان میں ہیں اور لیشنگز کلب کی جانب سے چند میچز بھی کھیلیں گے۔

یہ انٹرویو پاک پیشن انتظامیہ کی جانب سے خصوصی طور پر کرک نامہ کو ارسال کیا گیا ہے اور ان کی اجازت سے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ خصوصی انٹرویو کی فراہمی پر کرک نامہ پاک پیشن کا شکر گزار ہے۔