[کچھ یادیں، کچھ باتیں] عبدالقادر
1987ء میں انگلستان کے دورۂ پاکستان کے دوران کراچی ٹیسٹ کے موقع پر میرے ساتھ ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ انگلش کپتان مائیک گیٹنگ اور پاکستانی امپائر شکور رانا کے درمیان تنازع کے بعد سیریز بہت غیر دوستانہ ماحول میں کھیلی جارہی تھی۔ ہم سب کھلاڑی انتہائی دباؤ میں تھے۔ حریف کھلاڑیوں کے رویّے سے ایسا لگتا تھا جیسے ان کے ذہنوں میں یہ تصور تھا کہ پاکستان کوئی نہایت اجڈ و گنوار لوگوں کا ملک ہے، جہاں اخلاقیات نامی کوئی شے نہیں پائی جاتی۔ انگریز کھلاڑی ہر دم پاکستانی عوام سے خوفزدہ رہتے تھے اور میچ کے بعد شام کواپنے ہوٹل کے کمروں میں مقیّد کر لیتے۔ پوری سیریز اسی طرح گزری۔ جب کراچی ٹیسٹ شروع ہونے والا تھا تو غالباً ایک یا دو دن قبل میں نے انگلستان کے اسپنر جان ایمبوری، جن کے ساتھ میری اچھی خاصی گپ شپ تھی، کو دعوت دی کہ آج وہ میرے ساتھ کراچی گھومنے چلیں۔ پہلے تو ایمبرے مسکرادیئے اور معذرت کرلی، لیکن چونکہ فطرتاً وہ سیر سپاٹے والے آدمی ہیں، اس لیے انہوں نے اگلے دن مجھ سے ملاقات میں حامی بھر ڈالی کہ وہ کراچی کی سیر کرنے کو تیار ہیں اور وہ کپتان اور مینیجر سے اس کی اجازت بھی لے چکے ہیں۔ میں نے پاکستانی راویت کا بھرم رکھتے ہوئے انتہائی مہمان نوازی کا سلوک کیا اور بینک کی گاڑی میں انہیں پورا کراچی گھمایا۔ کراچی کی خوبصورتی دیکھ کر جان حیران رہ گئے اور خاص طور پر ساحل سمندر اُنہیں بہت پسند آیا۔
میں انہیں کلفٹن کے علاقے میں ایک تجارتی مرکز میں لے گیا۔ وہاں ہمارے مدّاحوں نے ہمیں گھیر لیا اور بہت عزت دی۔ اس کی داستان تو الگ ہے۔ بہرحال، وہاں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا، ہوا یہ کہ بازار میں قالینوں کی ایک دوکان پر جان ایمبرے کو کھڈی پر بنا ایک قالین بے حد پسند آیا۔ جب اس کی قیمت پوچھی تو وہ اس قدر زیادہ تھی کہ میرے پاس تو اُس وقت اتنے پیسے نہیں تھے کہ قالین خریدا جاسکتا جبکہ جان ایمبرے کے ذہن میں تو یہ تصور تھا کہ کراچی کے ہر موڑ پر ڈاکو و رہزن کھڑے ہیں اس لیے وہ تواپنا بٹوہ ہوٹل ہی چھوڑ آئے تھے۔ لیکن جان کو قالین کو بے حد پسند آیا تھا اور وہ اسے چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ ہماری پریشانی دوکاندار بھانپ چکا تھا۔ یہ ایک بڑی اور خوبصورت اور لگژری قسم کی دوکان تھی۔ سیلز مین نے مالک سے کچھ کہا تو انہوں نے کہا ”جناب آپ قالین لے جائیے، پیسے بعد میں آجائیں گے، آپ بھاگ کر تو جائیں گے نہیں، اور پھر آپ کو کون نہیں جانتا؟ آپ بے فکر ہو کر لے جائیے“ اس وقت جو کچھ پیسے میری جیب میں تھے وہ ہم نے دوکاندار کو دیے اور اس وعدے کے ساتھ ہم قالین لے کر آگئے کہ دوسرے دن پیسے دے دیں گے۔
اگلے دن ٹیسٹ شروع ہوگیا۔ ہم کھیل میں کچھ ایسے مگن ہوگئے کہ دوکاندار کو پیسے دینے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ میں نے میچ میں 10 وکٹیں حاصل کیں، اور جان ایمبرے ہی واحد بلے باز تھے جو میری بالنگ کے سامنے ٹک سکے۔ انہوں نے دونوں اننگز میں 70 اور 74 رنز کی اننگز کھیلیں۔ اور میچ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوگیا۔
آخری دن ہم نے سوچا ہوا تھا کہ آج ہر حالت میں دوکاندار کو پیسے دے آئیں گے۔ لیکن اس وقت ہماری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب ہمارے ہوٹل کے استقبالیے پر ہمیں ایک لفافہ دیا گیا۔ جس میں ایک پرچہ تھا جس پر جلی حروفوں میں اس دکان کے مالک کی جانب سے لکھا ہوا تھا کہ ”ایمبرے کی بلے بازی اور قادر کی باؤلنگ نے قالین کا بل ادا کر دیا ہے۔“ اس کے ساتھ ایک چیک بھی تھا جس میں وہ رقم واپس کردی گئی تھی جو ہم نے دوکاندار کو ادا کی تھی۔
مجھے ذاتی طور پر تو پاکستان کے لوگوں سے ایسا پیار اور محبت بیسیوں بار ملا ہے لیکن اس دن دوکاندار کی طرف سے ایسی محبت اور خلوص دیکھ کر جان ایمبرے کے منہ سے بھی بے اختیار نکلا کہ ”پاکستان کے لوگ بہت محبت کرنے والے ہیں۔“