[اعدادوشمار] پاکستانی بلے بازوں کی نااہلی کی طویل تاریخ
پاکستان سری لنکا کے خلاف گال میں جاری ٹیسٹ میں سخت مشکلات کا شکار ہے اور میزبان ٹیم کے پہلی اننگز کے 472 رنز کے جواب میں وہ پہلی اننگز میں صرف 100 رنز پر ڈھیر ہوا اور اب جبکہ وہ 510 رنز کے ہدف کا تعاقب کر رہا ہے، محض 36 پر اپنی تین وکٹیں گنوا چکا ہے اور ایک بہت بڑی شکست کا اژدہا منہ کھولے اس کا انتظار کر رہا ہے۔ بہرحال، صورتحال کا اونٹ جس بھی کروٹ بیٹھتا ہے، یہ بات تو طے شدہ ہے کہ پاکستان کی بلے بازی میں اب بالکل دم خم نہیں ہے۔ نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ہی گویا پاکستان کے بلے بازوں میں بچی کچھی صلاحیتوں کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ انضمام الحق، محمد یوسف اور یونس خان کی انفرادی کارکردگی کی مثال تو دی جا سکتی ہے لیکن پچھلے 12 سالوں میں ایسے مواقع انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جب پاکستان اپنی بیٹنگ کے بل بوتے پر کوئی مقابلہ جیتا ہو۔ زیادہ تر تو یہی ہوا ہے کہ جیتے ہوئے میچز اپنی ناقص بیٹنگ کے باعث گنوائے ہیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے بیٹنگ کے شعبے کے زوال کی عکاسی اعداد و شمار بھی کرتے ہیں۔ 2000ء کے آغاز سے اب تک پاکستان 9 مرتبہ ٹیسٹ میں 100 یا اس سے کم اسکور پر ڈھیر ہوا ہے۔ جو اس عرصے کے دوران دنیا کی تمام ٹیموں سے زیادہ ہے۔ دنیائے کرکٹ کی کمزور ترین ٹیم بنگلہ دیش بھی اس عرصے میں پاکستان سے کم یعنی 8 مرتبہ تہرے ہندسے سے قبل آل آؤٹ ہوئی ہے۔ مجموعی طور پر تاریخ میں 16 مواقع ایسے آئے ہیں جب پاکستان 100 سے کم کے مجموعے پر آؤٹ ہوا ہے۔
رواں صدی میں پاکستان کے اس منحوس سفر کا آغاز اکتوبر 2002ء میں شارجہ کے میدان سے ہوا جہاں پاکستان آسٹریلیا کے خلاف ایک ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں 59 اور 53 رنز بنا کر آل آؤٹ ہوا۔ اس ذلت آمیز شکست کے بعد بھی کئی مواقع ایسے آئے جب پاکستانی بلے باز پیٹھ پھیر کر میدان سے بھاگے۔ دسمبر 2004ء میں پرتھ کے میدان میں 72 اور جولائی 2009ء میں کولمبو میں سری لنکا ہی کے خلاف 90 پر آل آؤٹ ہو کر پاکستان نے تمام میچز ہارے۔مذکورہ مقابلے میں پاکستان کی جانب سے پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے فواد عالم نے دوسری اننگز میں میں 168 رنز کی تاریخی اننگز کھیلی اور بیرون ملک ڈیبو پر سنچری بنانے والے پہلے قومی بلے باز بنے لیکن ان کی انفرادی کارکردگی کے باوجود سری لنکا کو فتح کے لیے 171 رنز کا آسان ہدف ملا جو اس نے 3 وکٹوں کے نقصان پر پورا کر لیا۔
پھر 2010ء کے بدقسمت دورۂ انگلستان میں پاکستان اسپاٹ فکسنگ کی دلدل میں تو دھنسا ہی لیکن ساتھ ساتھ اس کی مجموعی کارکردگی بھی گھٹیا تھی۔ خصوصاً بلے بازی، عالم یہ تھا کہ ایک ہی سیریز میں وہ تین مرتبہ 100 سے کم کے مجموعے پر آؤٹ ہوئے۔ ناٹنگھم میں 80، برمنگھم میں 72 اور لارڈز میں 74 رنز پر پاکستانی اننگز تمام ہوئی اور تینوں ہی میچز پاکستان نے ہارے۔
اس پوری فہرست میں صرف ایک ہی موقع ایسا ہے جب پاکستان پہلی اننگز میں محض 99 رنز بنانے کے باوجود میچ جیتنے میں کامیاب ہوا۔ وہ ہے رواں سال فروری میں کھیلا گیا دبئی ٹیسٹ جہاں پاکستان نے عالمی نمبر ایک انگلستان کے خلاف شاندار فائٹ بیک کرتے ہوئے پاکستان کو فتح سے ہمکنار کیا۔ یہ ملکی تاریخ کا واحد واقعہ تھا کہ جس میں پاکستان پہلی اننگز میں محض 99 رنز پر ڈھیر ہو جانے کے باوجود اپنی باؤلنگ کے بل بوتے پر اور دوسری اننگز میں بلے بازوں کی بہترین جوابی بلے بازی کی بدولت میچ جیتنے میں کامیاب ہوا۔
ماضی قریب کے ان واقعات کے علاوہ بھی کئی مواقع ایسے آئے ہيں جب پاکستان کے تمام بلے باز مل کر بھی اننگز کو تہرے ہندسے میں داخل نہ کر سکے ہوں اور یوں مقابلہ حریف کو طشتری میں رکھ کر پیش کر دیا ہو۔ بھلا نومبر 1981ء میں آسٹریلیا کے خلاف پرتھ ٹیسٹ کون بھول سکتا ہے؟ جی ہاں! وہی مقابلہ جس میں پاکستانی کپتان جاوید میانداد اور آسٹریلین باؤلر ڈینس للی کے درمیان جھگڑا ہوا تھا اور للی نے جاوید میانداد کو لات مارنے کی بچکانہ حرکت کی جس پر وہ میانداد کا بلّا کھاتے کھاتے بچے۔ لیکن اس تنازع سے ہٹ کر زیادہ افسوسناک پہلو یہ تھا کہ آسٹریلیا کے 180 رنز کے جواب میں پاکستان کی پہلی اننگز محض 62 رنز پر تمام ہوئی تھی اور سوائے سرفراز نواز (26 رنز) کے کوئی بلے باز دہرے ہندسے میں بھی داخل نہیں ہوا تھا۔ اوپنرز مدثر نذر اور رضوان الزماں صفر پر، جاوید میانداد 6، ماجد خان 3 اور وسیم راجہ اور عمران خان 4، 4 رنز پر پویلین لوٹے۔ انہی بلے بازوں کو دوسری اننگز میں 543 رنز کا بھاری ہدف ملا جس کے جواب میں وہ 256 رنز پر ہی پہنچ کر دم توڑ گئے اور فتح 286 رنز سے آسٹریلیا کے ہاتھ رہی۔
علاوہ ازیں، دوسری اننگز میں پاکستان کی بدترین "حرکتوں" میں سے ایک اکتوبر 1997ء میں کا فیصل آباد ٹیسٹ ہے جہاں پاکستان کے باؤلرز نے حسب سابق شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے دونوں اننگز میں جنوبی افریقہ کو 250 رنز سے قبل ہی آل آؤٹ کر دیا جبکہ پاکستانی بلے بازوں نے پہلی اننگز میں اچھی بلے بازی کی اور 308 رنز بنائے لیکن آخری اننگز میں محض 146 رنز کا تعاقب ان کے لیے بھیانک خواب ثابت ہوا اور پوری ٹیم 92 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ سعید انور اور اعجاز احمد جیسے بلے باز صفر کی ہزیمت لیے پویلین لوٹے۔ جنوبی افریقہ کے ہیرو شان پولاک تھے جنہوں نے 5 وکٹیں حاصل کیں۔
ہم قارئین کی دلچسپی کے لیے ذیل میں ان تمام مقابلوں کے اعداد و شمار پیش کر رہے ہیں جن میں پاکستانی ٹیم 100 رنز یا اس سے کم اسکور پر آؤٹ ہوئی۔
ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے 100 سے کم رنز پر ڈھیر ہو جانے کے مواقع
رنز | اننگز | نتیجہ | بمقابلہ | بتاریخ | بمقام | |
---|---|---|---|---|---|---|
87 | پہلی | ڈرا | جون 1954ء | لارڈز | ||
90 | دوسری | ڈرا | جولائی 1954ء | مانچسٹر | ||
100 | پہلی | شکست | جون 1962ء | لارڈز | ||
62 | دوسری | شکست | نومبر 1981ء | پرتھ | ||
77 | تیسری | شکست | نومبر 1986ء | لاہور | ||
97 | دوسری | شکست | نومبر 1995ء | برسبین | ||
92 | چوتھی | شکست | اکتوبر 1997ء | فیصل آباد | ||
59 | پہلی | شکست | اکتوبر 2002ء | شارجہ | ||
53 | تیسری | شکست | اکتوبر 2002ء | شارجہ | ||
72 | چوتھی | شکست | دسمبر 2004ء | پرتھ | ||
90 | پہلی | شکست | جولائی 2009ء | کولمبو | ||
80 | چوتھی | شکست | جولائی 2010ء | ناٹنگھم | ||
72 | پہلی | شکست | اگست 2010ء | برمنگھم | ||
74 | دوسری | شکست | اگست 2010ء | لارڈز | ||
99 | پہلی | فتح | فروری 2012ء | دبئی | ||
100 | دوسری | میچ جاری | جون 2012ء | گال |