[کچھ یادیں، کچھ باتیں] ’دعا قبول ہوئی‘ سکندر بخت کی زندگی کا ایک اہم واقعہ
1978ء میں جب مائیک بریئرلی کی قیادت میں انگلینڈ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی تو اس وقت کیری پیکر کا تنازع اپنے عروج پر تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کیری پیکر نے ٹیسٹ کرکٹ کے مقابلے میں آسٹریلیا میں رنگ برنگی نائٹ کرکٹ متعارف کروائی اور دنیا بھر کے چیدہ چیدہ کھلاڑیوں کو بھاری معاوضے کے عوض اپنی عالمی سیریز میں کھیلنے کی دعوت دی۔ پاکستان کی جانب سے بھی ابتداء میں اس کے وقت کے پانچ عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی ماجدخان، آصف اقبال، مشتاق محمد، ظہیر عباس اور عمران خان اس ورلڈ سیریز کو کھیلنے آسٹریلیاچلے گئے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان کھلاڑیوں پر پاکستان کے لیے کھیلنے پر پابندی لگادی۔ اور انگلینڈ کے خلاف سیریز کے لیے وکٹ کیپر وسیم باری کو ٹیم کا کپتان بنا دیا۔ سیریز کےدوٹیسٹ ڈرا ہوچکے تھے اور کراچی ٹیسٹ سے پہلے کراچی میں ایک روزہ نمائشی میچ کا انعقاد کیاگیاتھا۔ جس دن یہ نمائشی میچ شروع ہونا تھااس سے ایک دن قبل یہ اطلاع آئی کہ انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز جیتنے کی خاطر پی سی بی نے فوری طور سےکیری پیکر ورلڈ سیریز میں کھیلنے والے پانچوں کھلاڑیوں کو کراچی ٹیسٹ سے قبل طلب کرلیا۔ یہ بات میرے لیے اِس لحاظ سے پریشان کن تھی کہ عمران خان کی آمد کے بعد اور سرفرازنواز کی پہلے سے موجودگی کی وجہ سے تیسرے تیزگیند باز کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی تھی۔کراچی میرا آبائی شہر ہے اور میری شدید خواہش تھی کہ میں یہاں ٹیسٹ کھیلوں۔
انگلستان کے خلاف میچ سے قبل ایک روزہ نمائشی میچ کھیلنے والی ٹیم میں میرانام بھی شامل تھا۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اس میچ میں میری ایسی کارکردگی ہوجائے کہ میں عمران کے ہوتے ہوئے بھی ٹیسٹ کھیل جاؤں۔ اس نمائشی میچ کے ابتدائی اوور میں مجھے ایسے محسوس ہواکہ جیسے کسی نے میرے اندر بجلی بھردی ہو۔کراچی جیم خانہ میدان پر میں انگلش ٹیم کے خلاف انتہائی تیزرفتار و جارحانہ گیند بازی کررہا تھا۔ میرے سامنے انگلینڈ کے کپتان اور افتتاحی بلےباز مائیک بریئرلی، جوہمیشہ تحمل مزاجی سےاپنی اننگز کا افتتاح کرتے تھے، بلے بازی کررہے تھے۔ لیکن اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب مائیک بریئرلی نہایت غیرماہرانہ انداز میں میری ایک شارٹ پچ گیند پر ہک کرنے کی کوشش میں اپنی کہنی تڑوا بیٹھے۔زخم اتنا شدید تھا کہ وہ وکٹ پر ہی تقریباً نیم بے ہوش ہوگئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ ان کی کہنی دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوچکی تھی۔
میں قطعاً باڈی لائن گیندبازی کو پسند نہیں کرتا تھا اور نہ ہی میری گیند پرکوئی بلےباز زخمی ہو تو مجھ میں احساس برتری پیدا ہوتا تھا۔ میں تو ٹیسٹ ٹیم میں اپنی شمولیت کے مقصد سے انتہائی جوش خروش سےگیندبازی کرارہا تھا۔ انگلینڈ کے کھلاڑی اپنے کپتان کے اس بری طرح زخمی ہونے پرجہاں خوفزدہ ہوگئے تھے، وہیں وہ بےحد ناراض بھی ہوئے۔ مائیک بریئرلی فوری طور سے وطن واپس چلے گئے اور آخری ٹیسٹ میں انگلستان کی قیادت جیفری بائیکاٹ نے کی۔
اس ایک روزہ نمائشی میچ کے اختتام پر سلیکٹرز پریہ بات واضح ہوچکی تھی کہ برطانوی کھلاڑی سکندربخت سے گھبرائے ہوئے ہیں اور اس کی باؤلنگ کے سامنے نفسیاتی دباؤکا شکار ہیں۔دوست احباب مجھ سے کہنے لگے کہ اب تم کراچی ٹیسٹ کھیل جاؤگے لیکن مجھے یقین نہیں تھا کیونکہ عمران خان اور سرفرازنواز کی موجودگی میں ٹیم میں تیسرے تیز گیندباز کی جگہ ہی نہیں بنتی تھی۔ لیکن ٹیسٹ میچ سے ایک رات قبل کچھ ایسا ہوا کہ انگلینڈ کےقائم مقام کپتان جیفری بائیکاٹ نے اسپورٹس مین اسپرٹ سے عاری ایک بیان داغ دیا کہ اگر پاکستان کیری پیکر سرکس کے کھلاڑیوں کو اپنی ٹیم میں شامل کرےگا، تو وہ کراچی ٹیسٹ کا بائیکاٹ کر دیں گے۔ ان کی اس گیدڑ بھبکی کے سامنے نہ جانے کیوں اُس وقت کے پاکستانی کرکٹ بورڈ نے گھٹنے ٹیک دیئے اور ان پانچوں کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا اور یوں میں کراچی ٹیسٹ کھیلنے والےگیارہ کھلاڑیوں میں منتخب ہوگیا۔میری دعااللہ تعالیٰ کے دربار میں قبولیت کا شرف حاصل کرچکی تھی۔ عمران کی واپسی کے بعد میرے راستے بندہوچکے تھے لیکن اللہ نے جو سبب بنایا وہ سب کے لیے حیرانی کا باعث تھا۔ میں آج بھی سوچتا ہوں اگر کراچی ٹیسٹ میں میری شمولیت یقینی ہوتی تو شاید کراچی جیم خانہ میدان پر کھیلے گئےاس ایک روزہ نمائشی میچ میں میں زیادہ جوش و جذبے سے گیندبازی نہ کرتااور شاید مائیک بریئرلی بھی زخمی نہ ہوتے اور اگر بریئرلی زخمی نہ ہوتے تو شاید بائیکاٹ اخلاقیات سے عاری اور جارحانہ بیان بھی نہ دیتے اور پھر عمران ٹیم کے اندر ہوتے اور میں ٹیم سے باہر۔