[اقتباسات] شعیب محمد کا سب سے بڑا قصور میرا بیٹا ہونا تھا: حنیف محمد
آج جب میں پاکستانی بلے بازوں کی ناکامیاں دیکھتا ہوں تو میرا یہ دکھ اور پچھتاوا مزید بڑھ جاتا ہے کہ شعیب محمد آخر کیوں پاکستان کے لئے زیادہ عرصے نہیں کھیل سکے؟ یہ دکھ اور پچھتاوا اس لئے اور زیادہ ہے کہ میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ شعیب محمد کو شاید میرا بیٹا ہونے کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ حالانکہ وہ تکنیکی اعتبار سے ایک مکمل بلے باز تھے اور پاکستان کی بلے بازی ضروریات کے لئے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہوسکتے تھے۔ شعیب اب بھی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کی طرف سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے ہیں مگر اُن کا کیریئر بدقسمتی سے دکھ، مایوسیوں اور محرومیوں سے عبارت رہا ہے۔
جب شعیب بہت چھوٹے تھے میری بیگم نے شعیب کو اس طرح بازو گھماتے دیکھا جیسے وہ باؤلنگ کررہے ہوں۔ انہوں نے میری توجہ بھی مبذول کرائی۔ میں نے اسے بچے کا کھیل سمجھ کر نظرانداز کردیا اور مذاق میں بیگم سےکہا کہ اگر شعیب کا رجحان کرکٹ کی طرف ہوا تو یہ ہمارے فائدے کی بات ہوگی کیونکہ اس سے ماں کو بھی کھیل میں دلچسپی پیدا ہوگی۔ پھر جیسے جیسے شعیب بڑے ہوئے وہ محلے کے بچوں کے ساتھ ٹینس کی گیند سے کرکٹ کھیلنے لگے اور اسکول کی چھٹیوں میں خیر سے سیمنٹ وکٹوں پر میچ بھی کھیلنے لگے۔ کبھی کبھار ہم بھی اس کا کھیل دیکھنے چلے جاتے تھے۔
میں نے محسوس کیا کہ وہ ایک دفاعی بلے باز ہیں اور کسی ڈھیلی گیند پر اسکوائر کٹ کھیلنے کے بجائے گیند کے آنے کا انتظار کرتے ہیں اور پھرلیٹ کٹ کھیل دیتے ہیں۔ وہ وکٹ پرزیادہ سے زیادہ وقت گزارنا پسند کرتے تھے اور اس کے ساتھ وہ ایک بہت اچھے فیلڈر بھی تھے۔ وہ مجھے ضد کرکے گارڈن لے جاتے اوروہاں میرے ساتھ کیچنگ پریکٹس کیا کرتے۔ خاص طور پر وہ وسیم باری کی کسی کرتب باز کی طرح کی وکٹ کیپنگ سے بڑے متاثر تھے اور ایک ہاتھ سے کیچ پکڑنے اور جست لگا کے گیند روکنے کی پریکٹس کیا کرتے۔ اس طرح سے وہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک غضب کے فیلڈر بن گئےاور جب بھی فیلڈ میں ہوتے بڑی آسانی سے 20-25 رنز بچالیتے۔ ہرایک نے اُن کو ملک کابہترین فیلڈرقرار دیا۔ وہ ایک اور کرکٹر جان بریسویل کے ساتھ متبادل فیلڈرکےطورپر ایک میچ میں سات کیچ پکڑنے کا ریکارڈ کی شراکت رکھتے ہیں۔
سچی بات ہے ہمیں کبھی شعیب کو کرکٹ کھیلنے کے لئے نہیں کہنا پڑا۔ کرکٹ پہلے ہی ان کے خون میں تھی۔ ان کو کرکٹ سےبےحدلگاؤتھا۔ اگرچہ بعدمیں ان کے بیٹے شہزار محمد اس دیوانگی میں ان سے بھی آگے نکل گئے۔ آہستہ آہستہ شعیب کی کرکٹ بہتر ہوتی چلی گئی اور جب انہوں نے بلوچستان کے خلاف اپنے کیریئر کا پہلافرسٹ کلاس میچ کھیلا تو اگرچہ ان کو اس کام میں چار گھنٹے لگے پھربھی وہ سنچری بناگئے۔ ہم نے ان کی تربیت جاری رکھی اور وہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ سیکھتے گئے اور ایک اچھے اوپنر میں تبدیل ہوگئے۔ وہ بڑی آسانی سے بھانپ لیتے کہ گیند کہاں ٹپہ کھائےگی، کس طرف کا رخ کرے گی اور اسے کھیلنا ہے یا چھوڑنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں شعیب سوئنگ باؤلنگ کو بہت اچھی طرح کھیلتے تھے، بلاشبہ وہ ایک اچھے کرکٹرتھے۔ بالآخر انہوں نے جتنے ٹیسٹ اس سے کہیں زیادہ اپنے ملک کے کھیلنے چاہیے تھے۔ جب انہوں نے کرکٹ چھوڑی (یا چھڑوائی گئی) اس وقت اُن کا اوسط 44 رنز سے زائد تھامگر وہ بدقسمتی سے سلیکشن کی سیاست کا شکار ہوگئے۔
شاید میرا بیٹا ہونا شعیب کا سب سے بڑا قصور تھا کیونکہ جو لوگ میرے خلاف تھے انہوں نے میرا بدلہ مختلف طریقوں شعیب سے لیا۔ کبھی اُن کا سرے سے انتخاب ہی نہیں کیا گیا اورکبھی انتخاب کرنے اور ٹور میچوں میں اچھی کارکردگی دکھانے کے باوجود ٹیسٹ میچوں میں نہیں کھلایاگیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ شعیب محمد کا ٹیسٹ اوسط مجھ سے بھی بہتر رہاہے بلکہ ہم سب محمد برادران میں بھی، جو پاکستان کے لئے کھیلے ہیں، شعیب کا اوسط سب سے اچھا رہا ہے۔ مختصر سے ٹیسٹ کیریئرمیں انہوں نے دو ڈبل سنچریاں اسکورکیں اور مجھے اس حقیقت پر بھی فخرہے کہ صرف ہم دنیا میں واحد باپ بیٹے ہیں جنہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں ڈبل سنچریاں اسکور کی ہیں۔ شعیب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہےکہ انہوں نے 1989-90ء میں نیوزی لینڈکےخلاف سیریز میں مسلسل تین ٹیسٹ سنچریاں بنائیں۔ شعیب اس لحاظ سے بدقسمت رہے کہ جیسے ہی وہ ایک میچ میں اسکور نہ کرتے جھٹ اگلے میچ میں باہر بٹھا دیا جاتا۔ وہ اخبارات کی تنقید کا بھی نشانہ بنے رہے۔ یہاں تک کہ میں انہیں مشورہ دیتا تھا کہ وہ میچوں کے دوران اگر اچھا بھی کھیل رہے ہوں تو اخبارات نہ پڑھا کریں۔ میں بلکہ شعیب کو اس بات پر تحسین کا حقدار سمجھتا ہوں کہ تمام تر دباؤ اورمنفی تبصروں کے باوجود وہ اپنے ملک اور پی آئی اے کےلئےکھیلتے رہے۔
اعداد و شمار صاف بتاتے ہیں کہ کارکردگی کی بنیاد پر شعیب جتنا مستحق تھے، اس سے کہیں کم ان کو کھیلنے کے مواقع دیئے گئے۔ حتیٰ کہ 1992ء کے دورۂ انگلستان میں کاؤنٹی میچوں میں اچھے اسکور کے باوجود ان کو شروع کے چار میچوں میں کوئی موقع نہیں دیاگیا۔ انگلستان کے اخبارات نے بھی اس ناانصافی نشاندہی کی اور یہ سوال اٹھایا کہ کیا شعیب اَن فٹ ہیں جو انہیں کھیلنے کا موقع نہیں دیا جارہا ہے؟ جبکہ وہ سوئنگ باؤلنگ کو کھیلنے والے پاکستان ٹیم کے بہترین بلے باز ہیں۔ جب بہت شورمچا تو بالآخر اوول کے آخری ٹیسٹ میں شعیب محمد کو کھیلنے کا موقع دیاگیا۔ جہاں شعیب نے بڑے مفید 55 رنز کی اننگز کھیلی۔ اسی کی بدولت اور پھر وسیم اکرم اور وقاریونس کی تباہ کن باؤلنگ کی وجہ سے یہ ٹیسٹ پاکستان نے جیت لیا اور سیریز بھی اپنے نام کرلی۔
یہ واقعی بڑی افسوسناک بات ہے کہ پاکستان میں سیاست اور ذاتی پسند و ناپسند قومی مفاد کو بھی پیچھے چھوڑدیتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں شعیب کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ ایک زمانہ تھا جب پاکستان کی جانب سےکسی ٹیم کے خلاف سب سےزیادہ انفرادی ٹیسٹ اسکور (337 بقابلہ ویسٹ انڈیز) کا ریکارڈ میرے پاس تھاجبکہ ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ کا سب زیادہ انفرادی اسکور (126رنز بمقابلہ نیوزی لینڈ) شعیب کے پاس تھا۔ میرا ریکارڈ اب بھی قائم ہے مگر شعیب سے پہلے انضمام الحق اور پھر سعید انور آگے نکل گئے۔
ہماری ہمیشہ سے ایک ایسی فیملی رہی ہے جس پر مردچھائے رہےہیں۔ میں پہلے ہی اپنی بہن کی وفات اور ایک بیٹی کے لئے والدین کی خواہش کا ذکر کرچکا ہوں۔ اس لئے جب میری بیٹی سیما پیداہوئی تو ہمارےگھرمیں ایک جشن سا منایا گیا۔ ایک بیٹی نے ہمارے پورے نقطۂ نظر کو تبدیل کرکے رکھ دیااور ہمیں احساس ہوگیا کہ بیٹیاں خدا کی کتنی بڑی نعمت ہوتی ہیں۔ یہی کچھ اب شعیب کےگھرمیں بھی ہورہا ہے۔ شعیب کے بچے میری چاہت کی توجہ کا مرکز اور میرے ہمہ وقت ساتھی رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب وہ پہلے میرے پاس سویا کرتے اور سونے کے بعد ان کو اپنےوالدین کے کمروں میں منتقل کردیا جاتا۔ میرے پوتےشہزارمحمد نے میرے ساتھ کرکٹ بھی کھیلی ہے اور پتنگیں بھی اڑائی ہیں، شہزار اپنے دادا کی گودمیں بڑا ہوا ہے۔ ویسے تو فطرت اپنا رستہ خود بناتی ہے تاہم میں آج بھی جب کبھی شعیب کو کھیلتے دیکھتا ہوں تو نجانے کیوں یہ دکھ ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کرکٹ کو اتنا کچھ نہ دے سکا جتنا وہ دے سکتاتھا۔ جب یہ سوچتا ہوں کہ اس کے ساتھ یہ سلوک صرف میری وجہ سے راو رکھا گیا تو میرا دکھ اور پچھتاوا اور بڑھ جاتا ہے۔
لٹل ماسٹر حنیف محمد کی آپ بیتی Hanif Mohammed Playing for Pakistan: An Autobiography سے ایک اقتباس