رمیز راجہ مصباح کی حمایت میں کود پڑے، کپتان برقرار رکھنے کا مطالبہ

1 1,023

اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے بعد پاکستان کرکٹ کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو اک ایسے شخص نے سہارا دیا جو خود کافی عرصے سے قومی ٹیم سے باہر تھا اور نہ صرف یہ کہ اسے منجدھار سے نکالا بلکہ پے در پے فتوحات سے اسے اک نیا حوصلہ و توانائی بھی عطا کی۔ مصباح الحق، جن کی زیر قیادت پاکستان نے سری لنکا اور انگلستان جیسے مضبوط حریفوں کے خلاف زبردست فتوحات حاصل کیں اور طویل عرصے کے بعد قومی کرکٹ ٹیم عالمی درجہ بندی میں ترقی کی منازل طے کرنے لگی۔ لیکن رواں سال کے اوائل میں انگلستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں تاریخی کلین سویپ کے بعد گویا کارکردگی میں یکدم زوال آ گیا۔ قومی کرکٹ ٹیم اس کے فوری بعد کھیلی جانے والی ایک روزہ سیریز کے تمام چار مقابلے ہار گئی اور یوں ایک روزہ کرکٹ میں مصباح کی اہلیت پر پہلی مرتبہ انگلی اٹھی۔

پاکستان کے پاس مصباح کا کوئی متبادل بلے باز تک نہیں: رمیز راجہ (تصویر: AFP)
پاکستان کے پاس مصباح کا کوئی متبادل بلے باز تک نہیں: رمیز راجہ (تصویر: AFP)

پھر سری لنکا کے خلاف ناکامی اور اب متحدہ عرب امارات میں آسٹریلیا کے خلاف ایک روزہ مقابلوں میں شکست کے باعث مصباح کے ناقدین ایک مرتبہ پھر میدان میں آ گئے ہیں اور محمد حفیظ کی زیر قیادت ٹی ٹوئنٹی سیریز کے اولین دونوں مقابلوں میں زبردست فتوحات نے گویا جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور اب بڑی شدومد کے ساتھ کرکٹ کے حلقوں میں پس پردہ اور عوامی حلقوں میں سرعام، اور چندتجزیہ کاروں کی جانب سے بھی، یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ مصباح الحق کو ایک روزہ کرکٹ کی کپتانی سے بھی محروم کر دیا جائے۔

اس حوالے سے معروف تجزیہ کار اور سابق ٹیسٹ کرکٹر رمیز راجہ نے مصباح الحق کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بحیثیت کپتان فتوحات کا 66.33 فیصد تناسب ان کی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے اور آنے مستقبل کے لیے کپتان برقرار رکھنا چاہیے۔ معروف کرکٹ ویب سائٹ پاک پیشن کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے رمیز راجہ کا کہنا تھا کہ ”میرے خیال میں مصباح نے قائد کی حیثیت سے زبردست خدمات انجام دیں ہیں اور پاکستان کرکٹ بورڈ انہیں ایک روزہ ٹیم کی قیادت سے ہٹانے سے پیدا ہونے والے خلاء کا متحمل نہیں۔ مصباح نے ایک بہت ہی نازک وقت میں قیادت سنبھالی اور ٹیم میں زبردست ٹھیراؤ پیدا کیا ہے۔ اور نہ ہی پاکستان کے خلاف مڈل آرڈر میں ایسا کوئی دوسرا بلے باز موجود ہے جو مصباح الحق کا متبادل ثابت ہو۔ بحیثیت کپتان مصباح کی چند حکمت عملیوں پر تنقید ضرور کی جا سکتی ہے لیکن میرے خیال میں بحیثیت مجموعی انہوں نے بہترین کام کیا ہے اور میں اِس وقت ایک روزہ کپتان کے عہدے سے ان کو نکالنے کے حق میں نہیں۔“

گو کہ رمیز راجہ کو یقین نہیں کہ مصباح الحق 2015ء میں ہونے والے عالمی کپ تک کرکٹ کھیل بھی پائیں گے یا نہیں، کیونکہ اِس وقت مصباح کی عمر 40 سال ہے، اس لیے اُن کاکہنا ہے کہ ”اس کا تمام تر انحصار مصباح کی فارم اور اُن کی زیر قیادت پاکستان کی کارکردگی پر ہے۔ فی الوقت میں مصباح کی موجودگی اور 50 اوورز کی کرکٹ میں بحیثیت کپتان کردار ادا کرنے کا حامی ہوں۔“

ایک روزہ طرز کی کرکٹ میں پاکستان کی حالیہ شکستوں کا سب سے بڑا سبب غیر معیاری بلے بازی رہی ہے اور رمیز راجہ کی نظر میں اسکور بورڈ کو متحرک رکھنے میں ناکامی اور جارح مزاجی میں کمی اس کے بنیادی اسباب ہیں۔ ”ایک روزہ کرکٹ میں بلے بازی پاکستان کا سب سے بڑا اور پریشان کن مسئلہ ہے، لیکن اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ بات صرف اعتماد اور ایک روزہ کرکٹ کے لیے موزوں ترین بلے بازوں کے انتخاب کی ہے۔ آسٹریلیا کے خلاف متحدہ عرب امارات میں ہونے والی حالیہ سیریز ایک مشکل سیریز تھی اور پاکستان نے اس سے متعدد سبق حاصل کیے ہوں گے۔ تیسرے ایک روزہ میں ایک بہت عمدہ آغاز کے بعد پاکستان اس کا فائدہ نہ اٹھا سکا جو کافی مایوس کن تھا۔ مڈل آرڈر کو آگے بڑھنا ہوگا، انہیں اسکور بورڈ کو متحرک رکھنے کے لیے بہتر انداز میں کوششیں کرنا ہوں گی۔“

198 ایک روزہ مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے رمیز راجہ جو، 1992ء کے عالمی کپ فاتح پاکستانی دستے کا حصہ تھے، آسٹریلیا کے خلاف ایک روزہ سیریز کے مثبت پہلوؤں پر بھی نظر دوڑائی اور ان کا کہنا ہے کہ ناصر جمشید کا ”نیا جنم“ پاکستان کرکٹ کے لیے ایک بہت نیک شگون ہے اور وہ اور سعید اجمل حالیہ سیریز کے بہت بڑے مثبت پہلو ہیں۔

عمر اکمل کی حالیہ کارکردگی کے بارے میں رمیز راجہ نے کہا کہ ”وقت آ چکا ہے کہ کپتان اور کوچ عمر کے ساتھ مل بیٹھیں اور ٹیم میں ان کے کردار پر غور کریں اور اس مسئلے کو ذمہ داری کے ساتھ حل کریں۔ خود عمر اکمل کو میچ صورتحال کو درست انداز میں سمجھنا چاہیے۔ وہ باصلاحیت بھی ہیں اور پاکستا ن کے بیشتر نوجوان بلے بازوں سے مختلف بھی۔ وہ حریف گیند باز پر حاوی ہو کر کھیلنا چاہتے ہیں جو ایک اچھی علامت ہے۔ لیکن کوچنگ عملے اور کپتان کے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ عمر اکمل کے ساتھ مل کر بیٹھیں اور انہیں احساس ذمہ داری دلائیں۔ اگر میں سچی اور کھری بات کروں تو بحیثیت بلے باز عمر اکمل کی پیشرفت سے میں سخت مایوس ہوا ہوں کیونکہ وہ جن صلاحیتوں و قابلیتوں کے حامل ہیں، ان کے ساتھ انہیں اب تک اس سے کہیں بہتر کارکردگی دکھانی چاہیے تھی۔“

اب پاکستان سوموار کو آسٹریلیا کے خلاف سیریز کا آخری ٹی ٹوئنٹی مقابلہ کھیلنے کے بعد سری لنکا روانہ ہوگا جہاں 18 ستمبر سے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء کا باضابطہ آغاز ہو رہا ہے۔