کیپ ٹاؤن میں آج سے نئی بساط، کیا اس بارپاکستانی ٹیم شہ مات سے بچ پائے گی؟

9 1,033

پہلے ٹیسٹ میں پاکستانی کرکٹ کی جو گت بنی، وہ ایک پاکستانی پرستار ہونے کے ناطے خاصی تکلیف دہ اور عبرت ناک تھی لیکن اس کے باوجود کچھ ایسی غیر متوقع بھی نہیں تھی۔ انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو ہم پاکستانی بلے بازوں کے اس حشر کی تمام تر ذمہ داری صرف پچ کے تیز دھار اور اچھال دار ہونے پر نہیں ڈال سکتے کیونکہ جس پچ پر ہمارے (کاغذی) شیر مل کر پچاس رنز بھی نہ جوڑ پائے، جنوبی افریقی بلے بازوں کے لیے ہر گز بارودی سرنگوں سے اٹی دکھائی نہیں دی۔ اصل فرق یہ نظرآیا کہ ہمارے اکثر، بلکہ تقریباً سبھی بلے باز، اچھی سوئنگ اور سیم باؤلنگ کا سامنا کرنے کے ہنر اور مہارت سے ’’بدستور‘‘ بے بہرہ نظر آئے۔ انہوں نے اگر جنوبی افریقی پچوں پر بلے بازی کی کوئی خصوصی تیاری کی بھی تھی تو وہ کسی بھی موقع پر اس کی جھلک دکھانے میں ناکام رہے۔

جوہانسبرگ میں پاکستانی باؤلنگ کے واحد روشن پہلو جنید خان کی کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میں شرکت مشکوک ہے (تصویر: Getty Images)
جوہانسبرگ میں پاکستانی باؤلنگ کے واحد روشن پہلو جنید خان کی کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میں شرکت مشکوک ہے (تصویر: Getty Images)

یہ حقیقت ہے کہ جنوبی افریقی گیندبازوں خصوصاً ڈیل اسٹین کی تیز رفتاری اور سوئنگ پر غیر معمولی عبور کی وجہ سے پچ کچھ زیادہ ہی خطرناک لگ رہی تھی لیکن اگر یادداشت پر ذرا سا زور ڈالیں تو ہم کئی بڑے ناموں سے سجی پاکستانی ٹیم کو سری لنکا کی سست اور کم اچھال والی پچوں پر نووان کولاسیکرا اور تھیشارا پریرا جیسے درمیانی رفتار والے گیندبازوں کی سوئنگ کے سامنے تاش کے پتوں کی طرح بکھرتے دیکھ چکے ہیں۔ کچھ ایسا ہی نظارہ ہمیں بھارت کے خلاف گزشتہ چند مقابلوں میں بھی دکھائی دیا تھا جب بھوونیشور کمار جیسے نووارد کی گھومتی گیندوں نے بارہا ہمارے ’’نام بڑے اور درشن چھوٹے‘‘ والے بلے بازوں کو انتہائی بے جان پچوں پر تگنی کا ناچ نچایا۔ یعنی جنوبی افریقہ میں پاکستانی بلے بازوں کی نزاعی کیفیت صرف میزبان گیندبازوں کے جان لیواحملوں کا نتیجہ نہیں، مرض کی جڑیں پہلے سے موجود تھیں اور یہ توقع رکھنا محض خوش فہمی تھی کہ پاکستانی بلے باز اچانک سوئنگ اورسیم سے نمٹنا سیکھ جائیں گے۔

گزشتہ ٹیسٹ میں پاکستانی بلے بازوں کے آؤٹ ہونے کے انداز پر نظر ڈالی جائے تو ان کی اکثریت وکٹ کیپر اور سلپ فیلڈرز کو کیچنگ پریکٹس کراتی نظر آئی۔ جبکہ وہ سب آؤٹ ہونے سے پہلے بھی درجنوں بار بال بال بچے تھے۔ ایسا لگتا ہے جیسے باہر نکلتی گیندوں سے بلّا بچانے کا فن ان کے پاس سے گزرا ہی نہیں۔ لہٰذا اس اندیشے کو محض بدگمانی قرار نہیں دیا جا سکتا کہ کیپ ٹاؤن کی نسبتاً خشک پچ پر سوئنگ کرتی گیندوں سے ان کی چھیڑخانی کاسلسلہ برقرار رہے گا، کیونکہ ڈیل اسٹین اینڈ کمپنی اپنی بیش تر گیندیں ’’بے یقینی کے گلیارے ‘‘ میں پھینکنے سے باز نہیں آئیں گے۔

دوسری طرف اگر پاکستانی گیندبازوں نے پہلے ٹیسٹ کی طرح محض اِکا دُکااچھی گیندیں کرانے کی روش برقراررکھی تو آملہ، کیلس اورڈی ولیئرزسے رحم کی توقع عبث ہوگی ۔

یہ خوشی کامقام نہیں لیکن میرا اندازہ ابھی تک درست ثابت ہوا ہے کہ بطور کمک جنوبی افریقہ بھیجی جانے والی تیز گیندبازوں کی جوڑی غلطی کاازالہ نہیں بلکہ ایک اور غلطی ہے۔اگر عرفان کے ان فٹ ہونے کے خطرے سے بچنا مقصود تھا، تب بھی اپنے تجربے کی بدولت تنویر احمد کو راحت علی پر ترجیح دیناچاہیے تھی۔ راحت کی چند گیندیں واقعی مہلک لگیں لیکن بے ضرر گیندوں کی اتنی بھرمار تھی کہ میزبان بلے بازوں نے ’’قابلِ وکٹ‘‘ گیندوں پر خطرہ مول لینے کی زحمت ہی نہیں کی۔ راحت سے ہی کیا گلہ کریں؟ کہ برس ہابرس سے اٹیک میں شامل عمر گل بھی لگاتار عمدہ گیندوں سے بلے باز کو غلطی پر مجبور کرنے کے ہنر سے عاری دکھائی دیے۔ لے دے کر بچا ایک بیچارہ جنید خان، جو مسلسل تیکھے وار کرتا نظر آیا۔ اب کیپ ٹاؤن ٹیسٹ کے لیے اس کی شرکت بھی مشکوک ہے، اور اگر کارکردگی کا یہی سلسلہ جاری رہا تو اندازہ لگا لیں نیولینڈز میں آج سے کیا ہونے والا ہے؟

تیز گیندبازوں کی طرح ’’جادوگر‘‘ کے خطاب یافتہ سعیداجمل بھی انتہائی کند نظر آئے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے انہيں ذرا بھی آگاہی نہیں کہ جن پچوں پر گیند کم گھوم رہی ہو، وہاں اسپنر کواپنی لائن لینتھ، کنٹرول کے ساتھ فلائٹ اور اسٹمپس کے بیچوں بیچ گیند پھینک کر بلے باز کو غلطی پر مجبور کرنا پڑتا ہے۔ تیسرے درجے کی کوبرا الیون سے دو روزہ میچ میں عبدالرحمٰن کی کفایتی اور موثر گیند بازی کو دیکھتے ہوئے اگر ٹور سلیکشن کمیٹی جرات سے کام لے کر سعید اجمل کی عبدالرحمٰن کوموقع دے تو یہ فیصلہ ٹیم کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ بات تو تقریباً یقینی ہے کہ راحت کی جگہ عرفان کوموقع دیا جائے گا۔

یہ الگ بات ہے کہ کیپ ٹاؤن میں بھی ہار جیت کا دارومدار پاکستانی کی گیندبازی پر نہیں بلکہ بلے بازوں کی کارکردگی پر ہوگا۔ توفیق عمر اور حارث سہیل کی وطن واپسی کے بعد بطور کمک بھیجے جانے والے عمران فرحت کو ٹیم میں شمولیت کاموقع ملے نہ ملے ، وہ سینکڑوں بار ناکام ہو کر باہر ہونے کے باوجود ٹیم میں واپسی کا اپنا عالمی ریکارڈ ضرور بہتر بنالیں گے اور پاکستانی کرکٹ میں ان کا نام ’’پیا کی سہاگن‘‘ ٹائپ کھلاڑیوں کی فہرست میں نمایاں مقام پائے گا۔

دوسری طرف یونس خان کے لیے بھی ٹیم میں جگہ برقرار رکھنے کے یہ شاید آخری ایک دو مواقع ہیں۔ ورنہ عین ممکن ہے آئندہ ٹیسٹ میں بالآخر فیصل اقبال کو بھی ٹیم میں واپسی کا موقع مل جائے ۔جنوبی افریقہ میں پاکستانی بلے بازوں کی بے بسی دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ انضمام الحق کو ساتھ نہ لے جاکر پی سی بی نے سراسر گھاٹے کا سودا کیا۔ تیز گیندبازوں کے عمدہ ریکارڈ رکھنے والا ملتان کا سلطان یقیناً بلے بازوں کی ہمت بندھانے اورغلطیوں کی نشان دہی کے ذریعے اہم سہارا ثابت ہوتا۔

کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میں پاکستانی ٹیم سے کایاپلٹ کی توقع تو خاصی بے جا ہے، تاہم یہ امید ضرور کی جاسکتی ہے کہ پاکستانی ٹیم اس مرتبہ کم از کم اچھا مقابلہ ضرور کرے گی۔ گزشتہ مقابلے میں مایوس کن کارکردگی کے بعد تو پاکستانی شائقین اسے بھی غنیمت سمجھیں گے۔ پھر خود جنوبی افریقی کپتان کی جانب سے جو حوصلہ افزائی ہوئی ہے، شاید اسی سے بھی کچھ ہمت بندھ جائے، کہ اگر کوئی ٹیم اس صورتحال تک پہنچنے کے بعد جوابی وار کر سکتی ہے تو وہ صرف پاکستان ہے۔