[باؤنسرز] گرین شرٹس ون ڈے سیریز میں ریلیکس نہیں کرسکتی
بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی ایک روزہ درجہ بندی پر نظر دوڑانے کے بجائے اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو آج شروع ہونے والی پاک-جنوبی افریقہ سیریز میں پاکستان کو برتری حاصل ہے اور یہی بہترین موقع ہے کہ پاکستان پروٹیز کے خلاف ون ڈے سیریز میں اولین کامیابی حاصل کرسکے۔
گو کہ جنوبی افریقہ ٹیسٹ کرکٹ میں دنیا کی نمبر ایک ٹیم ہے، اور اس میں اس کا دور دور تک کوئی مقابل نہیں، لیکن ایک روزہ میں پروٹیز کی کارکردگی ویسی نہیں ہے اور وہ اس وقت عالمی درجہ بندی میں پانچویں پوزیشن پر ہے۔ دوسری جانب پاکستان کا ایک روزہ دستہ بھی کاغذ پر تو بہت زیادہ مضبوط ہے، تجربہ کار و نوجوان کھلاڑیوں کا توازن موجود ہے جبکہ ہاشم آملہ اور ڈیل اسٹین جیسے کھلاڑیوں کی عدم موجودگی میں جنوبی افریقہ قدرے کمزور دکھائی دیتا ہے۔ البتہ حریف ٹیم تو اسے خواب میں بھی کمزور نہ سمجھے کیونکہ حالیہ ٹیسٹ سیریز کے اولین مقابلے میں شکست کے بعد جس طرح ہاشم آملہ کی عدم موجودگی میں جنوبی افریقہ نے پاکستان کو چاروں شانے چت کیا ہے، وہ اس ٹیم کی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایک روزہ سیریز میں عمران طاہر جیسا کوئی ناتجربہ کار کھلاڑی ہی پاکستان کے اوسان خطا کردے۔ پھر ڈبل سنچری نے گریم اسمتھ کو بھی تازہ دم کردیا ہوگا۔
اگر پاکستان کے ایک روزہ دستے پر نظر ڈالیں تو اس میں تجربہ کار اور فتح گر کھلاڑی موجود ہیں، بس ان کے تال میل کو بہتر بنانے کے لیے ٹیم انتظامیہ کو کچھ دماغ لڑانا ہوگا کیونکہ متحدہ عرب امارات میں جس طرح کی صورتحال کا سامنا ہے اس میں موزوں ترین ٹیم اتارنا آسان نہیں ہوگا۔ فی الوقت اوپننگ کی پوزیشنیں جارح مزاج احمد شہزاد اور ناصر جمشید کے قبضے میں ہیں جبکہ نمبر تین پر تجربہ کار محمد حفیظ بیٹنگ کریں گے، جن کو ٹیسٹ سیریز سے باہر ہونے کے بعد اپنی اہمیت ظاہر کرنے کا موقع ملا ہے پھر ان کی باؤلںگ بھی سیریز میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
پاکستان کی نمبر چار پوزیشن کپتان مصباح الحق کے لیے مخصوص ہے، جو بوقت ضرورت پانچویں پوزیشن پر بھی کھیل سکتے ہیں تاہم اصل مسئلہ اگلی تین پوزیشنوں کے لیے کھلاڑیوں کے انتخاب کا ہوگا۔ یہاں ایک بلے باز، ایک وکٹ کیپر اور ایک آل راؤنڈر کی جگہ کو پر کرنا ٹیم انتظامیہ کا اصل امتحان ہے۔ تجربے صلاحیت کی بنیاد پر دیکھا جائے تو پانچویں پوزیشن عمر اکمل کی ہونی چاہیے جبکہ چھٹی پوزیشن عمر امین یا صہیب مقصود میں سے کسی ایک کو مل سکتی ہے۔ عمر امین کو اپنی آل راؤنڈ صلاحیتوں کی بنیاد پر صہیب پر فوقیت دی جا سکتی ہے جبکہ ساتویں پوزیشن جارح مزاج شاہد آفریدی کی ہوگی۔ آٹھویں نمبر پر سہیل تنویر یا وہاب ریاض میں سے کسی ایک کا انتخاب ہوگا جو بائیں ہاتھ سے تیز باؤلنگ کے ساتھ ساتھ اختتامی لمحات میں اپنی جارحانہ بیٹنگ سے ٹیم اسکور میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس کے بعد بقیہ تین نمبر سعید اجمل، جنید خان اور محمد عرفان کے ہوں گے۔
عین ممکن ہے کہ پاک-جنوبی افریقہ سیریز میں سرفراز احمد کو اسپیشلسٹ وکٹ کیپر کی جگہ دینے کی بجائے عمر اکمل کو ہی اضافی ذمہ داری دی جائے جو حال ہی میں بخوبی وکٹوں کےپیچھے خدمات انجام دیتے رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے لیے اوپننگ کے بعد اس وقت سب سے بڑا مسئلہ وکٹ کیپنگ ہی کا ہے۔ دورۂ زمبابوے میں سرفراز احمد متاثر کرنے میں ناکام رہے لیکن اس کے باوجود وہ پروٹیز کے خلاف آج شروع ہونے والی سیریز کا حصہ ہیں جبکہ عمر اکمل ویسٹ انڈیز میں عمدہ کارکردگی کے بعد ایک مرتبہ پھر ٹیم کا حصہ بنیں گے۔
گرچہ کچھ حلقے سرفراز احمد کو ٹیم میں جگہ دینے کی کوششوں میں ہيں لیکن عمر اکمل کی موجودگی میں سرفراز کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی اور اگر ایسا کیا گیا تو اس سے ٹیم کمبی نیشن متاثر ہوگا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ عمر اکمل ہی کو وکٹوں کے پیچھے دستانے تھمائے جائيں۔
باؤلنگ میں جنید خان کی جگہ عبد الرحمٰن کو کھلانے کا آپشن موجود ہے لیکن اس کا فیصلہ حالات و وکٹ کو دیکھ کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ پھر سعید اجمل، محمد حفیظ اور شاہد آفریدی کی موجودگی میں ٹیم میں چوتھے اسپنر کی جگہ بنتی بھی ہے یا نہیں، یہ فیصلہ بھی بائیں ہاتھ کے اسپنر کی شمولیت میں اہم کردار ادا کرے گا۔
پاکستان جنوبی افریقہ کے خلاف ایک روزہ سیریز جیت بھی سکتا ہے، اس کے لیے کھیل کے تینوں شعبوں میں جان مارنا ہوگی کیونکہ ابراہم ڈی ولیئرز، گریم اسمتھ، ژاں پال دومنی، فف دو پلیسی، مورنے مورکل، ویرنن فلینڈر اور راین میک لارن جیسے کھلاڑیوں کی موجودگی میں جنوبی افریقہ آخری گیند تک مقابلہ کرنے کی سکت رکھتا ہے۔ ٹیسٹ سیریز میں شکست کے بعد پاکستان کے لیے اب کوئی جائے قرار نہیں، اگر ڈھیلے پڑے تو نتیجہ دبئی ٹیسٹ جیسا آئے گا!