مرغوں کی لڑائی میں فائدہ کس کا؟
اگر آپ کو یہ معلوم نہیں کہ کچھ لوگ ایک ہی سانس میں دو متضاد باتیں کس طرح کرتے ہیں تو معروف نجی چینل 'جیو' کو دیا گیا شعیب اختر کا تازہ انٹرویو ملاحظہ کرلیجیے۔ موصوف شاہد آفریدی کے بیان پر تبصر ہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ کسی کی ذاتیات پر تنقید نہیں کرتے اور نہ ہی کرنا چاہتے لیکن کچھ ہی لمحوں بعد اپنی ہی بات کی نفی کرتے ہوئے آفریدی کو جاہل قرار دے دیا۔
مجھ سمیت بہت سے دیگر شائقین کرکٹ، جنہیں وطن واپسی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد آفریدی کے ہیکل جیکل والے بیان پر افسوس ہوا، اس سے کہیں زیادہ شعیب اختر کے ردعمل پر افسردہ ہوئے ۔ لیکن یہ بات ہمارے لیے باعث حیرت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ہم سب آفریدی اور شعیب اختر کی شخصیات سے بخوبی واقف ہیں، جن کی شہرت ہی منہ پھٹ، ضد اور اکھڑ مزاجی کی وجہ سے ہے۔
ایک طرف اگر آفریدی بغیر سوچے سمجھے ہر وقت چھکا مارنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں تو دوسری طرف شعیب اختر پر ہر گیند پر تیز ترین گیند پھینکنے کا ریکارڈ قائم کرنے کا بھوت سوار رہتا تھا۔ شاہد آفریدی اگرغصے کے وقت گیند چبانے سے گریز نہیں کرتے تو شعیب اختر بھی ڈریسنگ روم میں اپنے ساتھی کھلاڑی پر بلے بازی کی مشق کرنے سے نہیں ہچکچاتے تھے۔ دونوں کھلاڑیوں کے کیریئر میں ایسے کئی واقعات ہیں کہ جب انہوں نے کپتان اور کوچ کی رائے سے ہٹ کر کام کیا اور اس کا خمیازہ پوری ٹیم کو بھگتنا پڑا۔ یہ تو بس چند ایک مثالیں ہیں ورنہ آئینہ دکھانے کو تو بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔
کرکٹ میں دونوں کھلاڑیوں کی عادات میں مماثلت کے باوجود اگر شعیب اختر اپنے ہی جیسے گھمنڈی کرکٹر سے بدگمان ہیں تو اس کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ وقت سے پہلے سینئر کھلاڑیوں کی فہرست میں کھڑے ہوجانا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے آفریدی کی حاصل کردہ وکٹوں کی تعداد کو طنز کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں عام کھلاڑی قرار دینے کی کوشش کی لیکن یہاں وہ یہ بات بھول گئے کہ آفریدی کے پاس نہ صرف ان سے زیادہ وکٹیں اور رنز ہیں بلکہ کئی ایک ریکارڈز اور بھی ہیں جس سے آفریدی کی گیند بازی اور بلے بازی دونوں میں مہارت کا ثبوت ملتا ہے جن میں سب سے زیادہ مرتبہ مرد میدان قرار پانے کا اعزاز بھی شامل ہے۔
اس پورے معاملے میں ذرائع ابلاغ کا کردار سب سے گھناؤنا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ 'جدید دنیا' میں بھی ان کا 'مرغے لڑانے' کا شوق ابھی تک باقی ہے۔ فائدہ تو ان مالکان کی جیبوں ہی کو ہوگا لیکن لڑنے والے مرغے اپنے اور کرکٹ کے لیے کوئی اچھی مثال قائم نہيں کر رہے۔
گو کہ شاہد آفریدی نے میڈیا پر آنے والے مبصرین کو 'ہیکل جیکل' اور 'مسٹر بین' سے تعبیر کیا لیکن انہوں نے کسی کا نام لینے سے بھی گریز کیا تاہم اس دن کے بعد سے 'جیو نیوز' یہ بات ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے کہ 'ہیکل جیکل' دراصل شعیب اور یوسف کو کہا گیا ہے جبکہ 'مسٹر بین' کا خطاب سکندر بخت کو دیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آفریدی کی "میچورٹی" کو پس پشت پر رکھتے ہوئے تینوں مبصرین اپنی "بالغ نظری" کا مظاہرہ کرتے اور سوال کرنے والے سے پوچھتے کہ بھئی آپ کو کیسے پتہ ہم ہی وہ کارٹون ہیں جن پر آفریدی نے اشارہ کیا؟ مجھے پورا یقین ہے کہ اس سوال پر نیوز اینکرز بغلیں جھانک رہے ہوتے۔ لیکن افسوس کہ تنخواہ دار مبصرین پاکستان کرکٹ میں نت نئے تنازعات پیدا کرنے اور لوگوں کو کرکٹ سے بد دل کرنے کی کوششوں کا حصہ بن گئے۔
بہرحال، تینوں مبصرین شعیب اختر، محمد یوسف اور سکندر بخت کے متازع انٹرویو نے ناقدین کے اس دعوے کو غلط ثابت کردیا ہے کہ شاہد آفریدی کی ٹیم میں واپسی اور ان کی خراب کارکردگی کے باوجود ٹیم میں موجودگی میڈیا لابنگ کی مرہون منت ہے۔