ہارے بھی تو بازی مات نہیں
پاکستان ٹیم کی فتوحات کا خوابناک سفر سیمی فائنل میں روایتی حریف بھارت کے ہاتھوں شکست کے ساتھ تمام ہو گیا۔ عرصۂ دراز کے بعد قومی کرکٹ ٹیم نے عالمی کپ میں قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور 1999ء کے بعد سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی۔ اس میں شاہد آفریدی کا قائدانہ کردار اور بالنگ کارکردگی اہم تھی اور پورے عالمی کپ کے دوران ٹیم میں اتحاد اور فتح کی لگن نظر آئی، یکجہتی بھی دکھائی دی اور محنت بھی۔
پاکستان نے گروپ اے میں اپنے 6 میں سے 5 میچز میں فتوحات حاصل کیں۔ صرف نیوزی لینڈ کے خلاف میچ میں اس کی کارکردگی خراب رہی جس میں وکٹ کیپر کامران اکمل کی ناقص وکٹ کیپنگ اور آخری اوورز میں پاکستانی باؤلرز کی خراب لائن و لینتھ نے اس کے ہاتھوں سے میچ چھین لیا۔ لیکن اس کے علاوہ ہوم گراؤنڈ پر فیورٹ سری لنکا اور دفاعی چمپیئن آسٹریلیا کے خلاف میچز میں فتوحات قومی ٹیم کی بہت بڑی کامیابیاں تھیں۔ پھر کوارٹر فائنل میں پاکستانی ٹیم نے جس طرح ویسٹ انڈیز کو 10 وکٹوں سے کچلا وہ ان کے بڑھتے ہوئے حوصلوں کا اظہار تھا۔ بھارت کے خلاف سیمی فائنل میں بھی اگر فیلڈنگ میں کچھ بہتری ہو جاتی اور سچن ٹنڈولکر کے چھوڑے گئے کیچز لے لیے جاتے تو کوئی بعید نہیں کہ میچ کا نتیجہ مختلف ہوتا۔
لیکن اس شکست کے باوجود شاہد آفریدی کی قیادت میں پاکستانی ٹیم عرصۂ دراز بعد ایک اچھے روپ میں نظر آئی اور شائقین و ماہرین کی توقعات سے کہیں آگے یعنی سیمی فائنل تک پہنچی جہاں تک جنوبی افریقہ، آسٹریلیا اور انگلستان جیسی فیورٹ ترین ٹیمیں بھی رسائی حاصل نہ کر سکیں۔ ممکن ہے بعض شائقین کرکٹ اس بات سے اتفاق نہ کریں لیکن اگر پاکستان کرکٹ کے حالیہ چند سالوں کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ سیمی فائنل تک رسائی پاکستان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ 2007ء سے شروع ہونے والی اس کہانی کو پڑھے بغیر ہم قومی کرکٹ ٹیم کی عالمی کپ میں کارکردگی کو نہیں سمجھ پائیں گے۔
قومی کرکٹ کے زوال کا آغاز عالمی کپ 2007ء سے ہوتا ہے جہاں آئرلینڈ کے خلاف شکست نے انہیں ایسا دھچکا پہنچایا کہ جس سے ان کے کوچ باب وولمر بھی جانبر نہ ہو سکے اور خود پاکستانی ٹیم اگلے کئی سالوں تک اس صدمے سے نہ نکل سکا۔ عالمی کپ 2007ء کے بعد اب تک چار سال کے طویل عرصے میں پاکستان کے ریکارڈ پر صرف دو اہم کارنامے ہیں ایک ورلڈ ٹی ٹونٹی 2007ء کے فائنل تک رسائی اور ایک ورلڈ ٹی ٹونٹی 2009ء میں چمپیئن بننے کا اعزاز۔ اس کے علاوہ ٹیسٹ اور ایک روزہ کرکٹ میں پے در پے شکستوں کے بعد پاکستان درجہ بندی میں زوال کا شکار ہوتے ہوتے بالآخر چھٹے نمبر پر پہنچ گیا۔ عالمی درجہ بندی میں صرف ویسٹ انڈیز، بنگلہ دیش اور زمبابوے ہی اس سے پیچھے ہیں۔
اگر ٹیسٹ مقابلوں کا جائزہ لیا جائے تو 2007ء میں پاکستان کو ہوم گراؤنڈ پر جنوبی افریقہ سے شکست ہوئی اور بھارت جا کر بھی ناکام و نامراد وطن واپس لوٹا۔ 2008ء حقیقی معنی میں پاکستانی کرکٹ کے لیے تباہ کن ترین سال رہا۔ قومی کرکٹ ٹیم کو اس پورے سال میں ایک ٹیسٹ میچ کھیلنے کا بھی موقع نہیں دیا گیا۔ یہ آئی سی سی کے فیوچر ٹور پروگرام کی مکمل ناکامی کا ثبوت تھا۔ نہ کوئی ملک پاکستان آ کر کھیلنے پر راضی تھا اور نہ پاکستان کے خلاف کھیلنے پر۔
اس بدترین صورتحال میں سری لنکا نے پاکستان کا ساتھ دیا اور پاکستان آ کر کھیلنے پر رضامندی ظاہر کی۔ کراچی میں ہونے والا پہلا ٹیسٹ ڈرا ہوا. سیریز معمول کے مطابق خوشگوار انداز میں جاری تھی کہ لاہور ٹیسٹ کے دوران سیکورٹی انتظامات کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گردوں نے سری لنکن ٹیم پر حملہ کر دیا۔ حملے میں متعدد افراد جاں بحق ہوئے اور مہمان ٹیم کے چند کھلاڑی بھی زخمی ہوئے۔ یوں اس دن پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ لاہور کے لبرٹی چوک پر دفن ہو گئی۔ کرکٹ کی دیوانی قوم جو ایک طویل عرصے سے اپنے میدانوں کو آباد دیکھنا چاہتی تھی اب نجانے کتنے عرصے کے لیے اپنے میدانوں پر کرکٹ نہیں دیکھ پائے گی۔
اس افسوسناک واقعے کے بعد قومی کرکٹ ٹیم نے سری لنکا اور نیوزی لینڈ کے ناکام دورے کیے اور پھر آسٹریلیا میں پاکستان کرکٹ کی تابوت میں آخری کھیل ٹھونک دی گئی جہاں آسٹریلیا نے تمام ٹیسٹ، ایک روزہ اور ٹی ٹونٹی میچز میں فتح حاصل کی۔
ایک روزہ مقابلوں میں 2007ء کے عالمی کپ میں پہلے راؤنڈ ہی میں شرمناک شکست کے بعد قومی ٹیم نے پورے سال میں صرف ایک سیریز سری لنکا کے خلاف جیتی۔ باقی جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم گراؤنڈ پراور بھارت کے خلاف دونوں مقابلوں میں اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ 2008ء میں زمبابوے اور بنگلہ دیش جیسے کمزور حریفوں کو شکست دینے کے بعد بھارت کے خلاف سہ فریقی سیریز کا فائنل جیت کر اپنے حوصلوں کو تقویت پہنچائی لیکن ایشیا کپ 2008ء کے فائنل تک بھی نہ پہنچ سکی۔ یہ پاکستان میں کھیلا جانے والا آخری بین الاقوامی ٹورنامنٹ تھا ۔ اس کے بعد ویسٹ انڈیز نے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کر دیا، چاروناچار پاکستان کو ابوظہبی کا رخ کرنا پڑا جہاں اس نے اسے شکست دی۔ یہ پاکستان کی آخری فتح تھی جس کے بعد قومی کرکٹ ٹیم کو ایک روزہ سیریز جیتنے کے لیے 2011ء کا انتظار کرنا پڑا۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم 2009ء اور 2010ء مکمل طور پر ناکام رہی۔ اس عرصے میں نہ اس نے کوئی ٹیسٹ سیریز جیتی اور نہ ہی کوئی ایک روزہ ٹورنامنٹ۔ واحد بڑی کامیابی ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں حاصل کی جہاں پاکستان نے فائنل میں سری لنکا کو شکست دی۔ شکست کے گرداب میں پھنسی اس ٹیم کے لیے سال 2010ء بدترین یادیں لے کر آیا۔ آسٹریلیا اور انگلستان کے خلاف اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہوئی ٹیم اسپاٹ فکسنگ کے معاملے میں بری طرح پھنس گئی اور اس کے دو اہم ترین گیند باز محمد آصف اور محمد عامر سمیت ٹیسٹ کپتان سلمان بٹ اس الزام میں دھر لیے گئے۔ بعد ازاں تینوں پر کم از کم 5 سال کی پابندی عائد کر دی گئی۔
اس خراب اور ناگفتہ بہ صورتحال میں شاہد آفریدی نے ایک روزہ ٹیم اور مصباح الحق نے ٹیسٹ ٹیم کی قیادت سنبھالی۔ اسپاٹ فکسنگ کے باعث ذرائع ابلاغ اور ناقص کارکردگی کے باعث عوام کے شدید دباؤ کے باوجود پاکستان نے انگلستان کے خلاف سیریز سخت مقابلے کے بعد 3-2 سے ہاری اور پھر ابوظہبی میں کھیلی گئی 'ہوم سیریز' میں جنوبی افریقہ کے خلاف بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن سیریز نہ جیت سکا۔ پھر 2011ء یعنی عالمی کپ کا سال آیا۔ قومی ٹیم عالمی کپ سے قبل نیوزی لینڈ کے دورے پر گئی اور ایک طویل عرصے بعد ایک روزہ سیریز جیت کر سال کا اچھا آغاز کیا۔ اس کے باوجود کئی نوجوان اور نوآموز کھلاڑیوں پر مشتمل اس ٹیم سے کسی پاکستانی کرکٹ کے شیدائیوں کو بھی زیادہ توقعات نہ تھیں۔
پھر عالمی کپ کی صورت میں ٹیم کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے۔ پاکستان نے ابتدائی تینوں میچز با آسانی جیتے۔ کینیا اور کینیڈا کو شکست دینے کے علاوہ سری لنکا کو اس کے ہوم گراؤنڈ پر شاندار شکست دی۔ ان فتوحات کے باعث ٹیم کے حوصلے بہت بلند ہو گئے اور اسی حد سے زیادہ خود اعتمادی نے انہیں نیوزی لینڈ کے خلاف اگلے گروپ میچ میں شکست دلائی۔ زمبابوے کے خلاف فتح کے بعد دفاعی چمپیئن آسٹریلیا کے خلاف آخری گروپ معرکہ بہت اہمیت کا حامل تھا کیونکہ اس کا نتیجہ اس امر کا فیصلہ کرتا کہ کوارٹر فائنل میں اس کے مدمقابل کون ہوگا۔ پاکستان نے حیران کن طور پر عالمی نمبر 1 آسٹریلیا کو شکست دے کر عالمی کپ ٹورنامنٹس میں اس کی فتوحات کے طویل سلسلے کا خاتمہ کر دیا۔ یہ 1999ء کے بعد کسی عالمی کپ میں آسٹریلیا کی پہلی شکست تھی اور پاکستان کے لیے بھی 1999ء کے بعد پہلا موقع تھا کہ وہ عالمی کپ کے اگلے مرحلے تک پہنچا ہو۔
اس فتح نے پاکستانی شائقین کی توقعات کو بھی زندہ کر دیا اور کوارٹر فائنل میں ویسٹ انڈیز کو 10 وکٹوں سے دی گئی شرم ناک شکست نے گویا پاکستانی عوام کو عرش پر پہنچا دیا۔ شاہد آفریدی نے عالمی کپ میں شرکت سے قبل کیا گیا اپنا وعدہ پورا کر دکھایا کہ وہ ٹیم کو سیمی فائنل تک لے جائیں گے۔ ہر طرف سے داد و تحسین برسنے لگی اور توقعات بہت زیادہ بڑھ گئی لیکن پاکستان کا مقابلہ سیمی فائنل میں فیورٹ و میزبان بھارت سے پڑ گیا جسے پاکستان آج تک کسی عالمی کپ میچ میں شکست نہیں دے پایا۔
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا لیکن پاکستان اس روایت کو نہ توڑ سکا اور بھارت کے خلاف 29 رنز سے شکست کھا کر ٹورنامنٹ سے باہر ہو گیا۔ اس کے باوجود پاکستانی ٹیم نے ثابت کیا کہ تمام تر خراب حالات اور نا انصافیوں کے باوجود پاکستان کرکٹ اب بھی زندہ ہے بلکہ اتنی طاقتور ہے کہ عالمی کپ کی سر فہرست چار ٹیموں میں شامل ہوئی۔
اس طویل پس منظر کو ذہن میں رکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم نے عالمی کپ 2011ء میں کتنی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ فتح و شکست کھیل کا حصہ ہے، دو میں سے ایک ٹیم نے لازماً ہارنا ہوتا ہے۔ امید ہے کہ عالمی کپ میں اچھے کھیل سے حاصل کردہ اعتماد اسے ایک نئے سفر پر چلے چلے گا جو یقیناً کامیابیوں و کامرانیوں کا سفر ہوگا۔
قومی ٹیم کا اگلا ہدف ویسٹ انڈیز کو اس کی سرزمین پر ٹیسٹ اور ایک روزہ مقابلوں میں شکست دینا ہے جس کے بعد وہ آئرلینڈ کے خلاف چند میچز کھیلے گی۔ دونوں حریفوں کے خلاف کامیابیاں نہ صرف اس کے اعتماد میں اضافے کا باعث بنیں گی بلکہ پاکستان کو مستقبل میں بڑی ٹیموں کے خلاف صف آراء ہونے کے لیے بھی تیار کریں گی۔