ہاشم آملہ کے عہد کا کامیاب آغاز، گال کا معرکہ جیت لیا

1 1,065

جنوبی افریقہ نے 14 سال کے طویل عرصے کے بعد سری لنکا کی سرزمین پر کوئی ٹیسٹ میچ جیت لیا اور اس کے ساتھ ہی دو ٹیسٹ میچز کی سیریز میں ناقابل شکست برتری حاصل کرلی۔ لیکن اس کے باوجود بال ٹمپرنگ کے الزام نے اس کی اس یادگار فتح کو گہنا دیا ہے۔

اسٹین نے میچ میں 99 رنز دے کر 9 وکٹیں حاصل کیں اور بہترین کھلاڑی قرار پائے (تصویر: AP)
اسٹین نے میچ میں 99 رنز دے کر 9 وکٹیں حاصل کیں اور بہترین کھلاڑی قرار پائے (تصویر: AP)

گال میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں ڈین ایلگر اور ژاں-پال دومنی کی سنچریاں اور ڈیل اسٹین کی تباہ کن باؤلنگ جنوبی افریقہ کے لیے فاتحانہ ثابت ہوئی البتہ ویرنن فلینڈر کا گیند کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرتے ہوئے پکڑے جانے نے دنیا بھر میں خاصا ہنگامہ پیدا کیا۔ یہ گزشتہ چند ماہ میں دوسرا واقعہ ہے کہ جنوبی افریقہ کا کوئی کھلاڑی بال ٹمپرنگ میں پکڑا گیا ہو۔ پاکستان کے خلاف گزشتہ ٹیسٹ سیریز میں فف دو پلیسی گیند کو اپنے پاجامے کی زپ پر رگڑتے ہوئے دھر لیے گئے تھے۔ البتہ دونوں بار کھلاڑیوں کو معمولی جرمانوں کی سزا دے کر چھوڑ دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ سخت سزا کی آوازیں اٹھ رہی ہیں اور یہ تک کہا گیا ہے کہ بال ٹمپرنگ اتنا ہی سنگین جرم ہے جتنا کہ میچ فکسنگ۔ اور کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے۔ مقابلہ عین اسی وقت سری لنکا کی گرفت سے نکلا جب فلینڈر نے گیند سے چھیڑ چھاڑ کی۔ ان کی یہ حرکت براہ راست نہ دکھائی گئی لیکن جب تیسرے دن کے اختتام پر امپائروں نے وڈیوز کا جائزہ لیا تو انہوں نے پایا کہ فلینڈر گیند کی شکل کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور کچھ دیر بعد شاید شاید کہ اسی حرکت کی وجہ سے اسٹین نے پانچ اوور میں تین اہم سری لنکن وکٹیں حاصل کرکے مقابلے کو جنوبی افریقہ کے حق میں پلٹا دیا۔ فلینڈر کو صرف 75 فیصد میچ فیس کا جرمانہ بھگتنا پڑا جبکہ پاکستان کے خلاف فف دو پلیسی پر بھی صرف 50 فیصد جرمانہ لگایا گیا تھا۔

بہرحال، اس افسوسناک واقعے سے قطع نظر میچ میں جنوبی افریقہ کی کارکردگی بہت جامع رہی۔ ہاشم آملہ نے اپنے ٹیسٹ قیادت کے دور کا آغاز ایک بہت ہی یادگار فتح کے ساتھ کیا کیونکہ یہ 2000ء کے بعد سری لنکا کے دورے پر جنوبی افریقہ کی کسی بھی ٹیسٹ میں پہلی جیت تھی۔ اس کی بنیاد اوپنر ڈین ایلگر نے رکھی جنہوں نے ٹاس جیت کر کپتان کے بیٹنگ کرنے کے فیصلے کو درست ثابت کر دکھایا اور ساتھی اوپنر الویرو پیٹرسن کے ساتھ 70 اور فف دو پلیسی کے ساتھ 125 رنز کی شراکت داریاں قائم کرکے جنوبی افریقہ کو ایسا آغاز فراہم کیا جو بالآخر فتح پر منتج ہوا۔ ایلگر نے اپنے مختصر کیریئر کی محض دوسری سنچری پہلے روز چائے کے وقفے سے قبل 162 گیندوں پر مکمل کی اور پھر 103 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوگئے۔اس کے بعد جنوبی افریقہ کی اننگز کافی دیر تک سنبھل نہ پائی۔ ہاشم آملہ اور ابراہم ڈی ولیئرز جیسی قیمتی وکٹیں بھی محض 11 اور 21 رنز کا معمولی اضافہ کرسکیں جبکہ فف 80 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوگئے۔ 220 رنز پر محض دو وکٹیں کھونے والا جنوبی افریقہ 314 رنز تک پہنچتے پہنچتے 7 وکٹوں سے محروم ہوچکا تھا جس میں قابل ذکر اننگز دوسرا ٹیسٹ کھیلنے والے وکٹ کیپر کوئنٹن ڈی کوک کی تھی جنہوں نے 90 گیندوں پر 51 رنز بنائے۔ اس مرحلے ر صرف ایک اینڈ محفوظ تھا، جس پر دومنی کھڑے تھے۔ انہوں نے آخری دو وکٹوں کے ساتھ مل کر اسکور میں 141 رنز کا اضافہ کرکے ثابت کیا کہ یہ مہینہ ٹیل اینڈرز کا ہے۔ ایک طرف بھارت اور انگلستان کی سیریز میں آخری نمبر کے بیٹسمین زبردست کارکردگی دکھا رہے ہیں تو یہاں فلینڈر اور مورنے مورکل نے دومنی کا بھرپور ساتھ دیا اور اسکور کو 455 رنز تک پہنچا دیا۔ فلینڈر نے 96 گیندوں پر 27 رنز بنائے اور نویں وکٹ پر 75 رنز کا اضافہ کیا اور دومنی-مورکل شراکت داری میں جنوبی افریقی اسکور میں 66 رنز مزید بڑھے۔ مورکل کے 22 رنز پر آؤٹ ہونے کے ساتھ ہی جنوبی افریقہ نے اننگز ڈکلیئر کرنے کا اعلان کردیا۔ دومنی 206 گیندوں پر 100 رنز کی شاندار اننگز کے ساتھ میدان سے ناقابل شکست لوٹے۔

سری لنکا کی جانب سے دلرووان پیریرا نے چار، سورنگا لکمل نے تین اور رنگانات ہیراتھ اور اینجلو میتھیوز نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔

جواب میں سری لنکا کو جیسی کارکردگی دکھانے کی ضرورت تھی، وہ اوپل تھارنگا اور کپتان اینجلو میتھیوز کے علاوہ کوئی نہ دکھا سکا۔ کوشال سلوا کے 8، مہیلا جے وردھنے 3، دنیش چندیمال 6، دلرووان پیریرا صفر، کمار سنگاکارا 24 اور لاہیرو تھریمانے کے 38 رنز ہرگزایسی کارکردگی نہیں تھی جو مقابلے کو برابری کی سطح پر لے آتی۔ خاص طور پر تیسرے روز چائے کے وقفے کے بعد کے کھیل نے سری لنکا کو مقابلے کی دوڑ سے باہر کیا۔ 182 رنز 4 کھلاڑی آؤٹ پر دوسرا سیشن ختم کرنے کے بعد سری لنکا دن کے اختتام تک 9 وکٹیں گنوا بیٹھا جبکہ اسکور میں بھی صرف 100 رنز ہی کا اضافہ ہوسکا۔ اس تباہی کے ذمہ دار تھے ڈیل اسٹین، جنہوں نے اپنے پانچ اوورز میں تھرمیانے، چندیمال اور پیریرا کی قیمتی وکٹیں حاصل کیں۔ پھر چوتھے روز صبح سویرے مورنے مورکل نے سری لنکن اننگز کی بساط 292 رنز پر لپیٹ دی۔ سری لنکا کو پہلی اننگز میں 163 رنز کا خسارہ ہوا اور تقریباً اسی فرق سے وہ آخر میں شکست سے دوچار ہوا، یعنی یہ کہنا غلط نہیں کہ سری لنکا پہلی اننگز ہی میں مقابلہ ہار گیا تھا۔

پہلی اننگز میں ڈیل اسٹین نے 54 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کیں جبکہ مورکل کو 3 وکٹیں ملیں۔ ایک، ایک کھلاڑی کو عمران طاہر اور دومنی نے آؤٹ کیا۔

ایک شاندار برتری کے ساتھ جنوبی افریقہ نے دوسری اننگز کا آغاز پراعتماد انداز میں کیا اور 50 اوورز کھیلنے کے بعد اننگز 206 رنز پر ڈکلیئر کرتے ہوئے سری لنکا کو جیتنے کے لیے 370 رنز کا مشکل ہدف دیا۔ اس اننگز میں ڈی ولیئرز کے 51 رنز سب سے نمایاں رہے۔

دلرووان پیریرا نے ایک مرتبہ پھر بہترین باؤلنگ کا مظاہرہ کیا اور دوسری اننگز میں بھی 4 وکٹیں حاصل کرکے میچ میں اپنی وکٹوں کی تعداد کو 8 تک پہنچا دیا۔ دو کھلاڑیوں کو رنگانا ہیراتھ نے آؤٹ کیا۔

پہلی اننگز میں خسارے اور دوسری میں ایک بہت بڑا ہدف دیکھتے ہوئے سری لنکا کو بہت بڑی کارکردگی کی ضرورت تھی اور اس کی امیدیں تجربہ کار جوڑی کمار سنگاکارا اور مہیلا جے وردھنے سے وابستہ تھیں۔ لیکن پوری ٹیم میں سے صرف سنگا ہی توقعات پر کچھ پورا اتر سکے۔ محض تیسرے اوورز میں تھارنگا کی صورت میں اسٹین نے پہلا شکار کیا لیکن سنگاکارا نے معاملہ سنبھال لیا۔ چوتھے دن کے اختتام سری لنکا صرف 1 وکٹ کے نقصان پر 110 رنز بنا چکا تھا اور ایک امید تھی کہ آخری روز اپنے ہی میدان پر سری لنکن بیٹسمین مزید 260 رنز بناکر ایک یادگار فتح سمیٹ لیں گے۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ آخری دن ڈیل اسٹین اور مورنے مورکل کا دن تھا۔ ابتداء ہی میں انہوں نے سلوا-سنگا شراکت داری کا خاتمہ کیا اور اس مرتبہ بھی وکٹ دلانے والے اسٹین تھے جنہوں نے 38 رنز بنانے والے نوجوان بلے باز کو وکٹوں کے پیچھے آؤٹ کرایا۔ اس کے بعد ٹیسٹ کرکٹ کے آخری ایام گزارنے والے مہیلا جے وردھنے کی باری آئی جو دوسرے اینڈ سے مورکل کو وکٹ دے گئے۔ پھر سلسلہ ایک لمحے کے لیے بھی رکنے میں نہیں آیا۔ بلے باز اسٹین اور مورکل کو وکٹیں دیتے چلے گئے اور 216 رنز پر پوری ٹیم آؤٹ ہوگئی یعنی آخری 9 وکٹیں صرف 98 رنز کے اضافے سے گریں۔ صرف سنگاکارا کی 76 رنز کی اننگز قابل ذکر رہی، باقی کسی نے ایسی کارکردگی نہیں دکھائی جو میچ کو سری لنکا کے حق میں جھکا سکتی۔ سنگا کیریئر میں پانچویں بار سال میں ایک ہزار رنز مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن یہ سنگ میل یادگار نہ ہوسکا۔

اسٹین اور مورکل نے دوسری اننگز میں 4، 4 وکٹیں حاصل کیں یعنی میچ میں دونوں کی وکٹوں کی مجموعی تعددا 16 رہی۔ دو وکٹیں دومنی نے حاصل کیں لیکن سنچری اور یہ کارکردگی انہیں میچ کے بہترین کھلاڑی کے اعزاز تک نہ پہنچا سکی جو99 رنز دے کر 9 وکٹیں حاصل کرنے والے ڈیل اسٹین کو دیا گیا۔

یہ سری لنکا کی سرزمین پر کھیلے گئے جنوبی افریقہ اور سری لنکا کے 11 ٹیسٹ میچز میں پروٹیز کی محض تیسری فتح تھی ور 2000ء کے کانڈی ٹیسٹ کے بعد پہلی جیت بھی۔ کیا جنوبی افریقہ اگلا ٹیسٹ جیت کر لنکا ڈھا پائے گا؟ اس کا جواب 24 جولائی سے کولمبو میں شروع ہونے والے دوسرے ٹیسٹ میں مل جائے گا جہاں اس کے لیے مقابلہ ڈرا کرنا ہی کافی ہوگا۔