سرفراز کی سنچری، ہیراتھ کی 9 وکٹیں، سری لنکا حاوی

0 1,060

کولمبو کے سنہالیز اسپورٹس کلب میں سرفراز احمد کی سنچری، رنگانا ہیراتھ کی اننگز میں 9 وکٹوں اور آخر میں کمار سنگاکارا اور مہیلا جے وردھنے کی ناقابل شکست 98 رنز کی شراکت داری نے دوسرے پاک-لنکا ٹیسٹ میں سری لنکا کو 165 رنز کی برتری تک پہنچا دیا ہے جبکہ اس کی 8 وکٹیں اور دو دن کا کھیل ابھی باقی ہے۔ یعنی پاکستان کو سیریز بچانے کے لیے کارکردگی کے ساتھ ساتھ معجزے اور دعاؤں کی بھی ضرورت ہوگی کیونکہ جس طرح تیسرے دن وکٹ نے اپنے رنگ دکھانا شروع کیے ہیں،اس کے بعد اگر پہلی اننگز کی کارکردگی کو مدنظر رکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ ہدف کے تعاقب میں پاکستان کے بیٹسمینوں کی خیر نہیں ہوگی۔

کمار سنگاکارا اور مہیلا جے وردھنے ٹیسٹ کرکٹ میں آخری بار کھیلتے ہوئے، اب تک ناقابل شکست 98 رنز بنا چکے ہیں، ان کی شراکت داری جتنا مزید آگے بڑھے گی، پاکستان اتنا ہی دوڑ سے باہر ہوتا جائے گا (تصویر: AFP)
کمار سنگاکارا اور مہیلا جے وردھنے ٹیسٹ کرکٹ میں آخری بار کھیلتے ہوئے، اب تک ناقابل شکست 98 رنز بنا چکے ہیں، ان کی شراکت داری جتنا مزید آگے بڑھے گی، پاکستان اتنا ہی دوڑ سے باہر ہوتا جائے گا (تصویر: AFP)

بہرحال، پاکستان نے تیسرے دن کا آغاز 244 رنز 6 کھلاڑی آؤٹ کے ساتھ کیا اور 66 رنز پر کھڑے سرفراز احمد کی نظریں سری لنکا کے 320 رنز پر تھیں۔ کم از کم اس بنیادی ہدف کو تو انہوں نے حاصل کر ہی لیا۔ پاکستان کے سرفہرست چھ بلے بازوں کے مقابلے میں سرفراز نے بڑی جراتمندی کے ساتھ ہیراتھ کا مقابلہ کیا اور اپنے مختصر ٹیسٹ کیریئر کی پہلی سنچری مکمل کرکے گزشتہ پانچ سالوں میں سنچری بنانے والے پہلے پاکستانی وکٹ کیپر بن گئے۔ سرفراز نے صرف 127 گیندوں پر ایک چھکے اور 7 چوکوں کی مدد سے 103 رنز بنائے اور رنگانا ہیراتھ ہی کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے۔ آخری وکٹ پر سعید اجمل اور جنید خان نے اسکور میں 17 رنز کا اضافہ کیا اور یوں 332 رنز کے ساتھ پاکستان کو پہلی اننگز میں 12 رنز کی برتری حاصل ہوگئی۔ جسے حوصلہ افزاء اور فیصلہ کن تو نہیں کہا جا سکتا لیکن 140 رنز پر پانچ وکٹیں گرجانے کے بعد خود پاکستان کے کھلاڑیوں کو بھی توقع نہ ہوگی کہ وہ برتری حاصل کریں گے۔

سری لنکا کی جانب سے سب سے نمایاں کارکردگی رنگانا ہیراتھ نے دکھائی جنہوں نے 127 رنز دے کر 9 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ اس طرح سیریز میں صرف تین اننگز میں ان کے شکاروں کی تعداد 18 تک پہنچ چکی ہے جو دو ٹیسٹ کی سیریز میں مرلی دھرن کے 22 وکٹوں کے ریکارڈ سے چند ہی قدم کے فاصلے پر ہے۔ پوری پاکستانی اننگز میں صرف احمد شہزاد ہی ان کے ہاتھ نہیں لگے جو انتہائی ناقص گیند پر وکٹ کیپر نیروشان ڈکویلا کے ناقابل یقین کیچ کا شکار ہوئے۔ ان کے علاوہ سب ہیراتھ کے سامنے ہتھیار ڈالتے چلے گئے۔

بیٹنگ کے لیے سازگار وکٹ پر سری لنکا کی دوسری اننگز کا آغاز بہت پراعتماد تھا۔ اوپل تھارنگا اور کوشال سلوا نے پہلی ہی وکٹ پر 54 رنز کی بہترین بنیاد فراہم کی۔ گو کہ وکٹ سے باؤلرز کو مدد ملنا شروع ہوگئی تھی لیکن جنید خان کے بغیر پاکستانی باؤلنگ لائن اپ بے دانت کا شیر ثابت ہوئی اور سوائے عبد الرحمٰن کو ملنے والی دو وکٹوں کے پاکستان کے باؤلرز کوئی کامیابی نہ سمیٹ سکے۔ غیر یقینی اچھال اور ٹرن ملنے کے باوجود مہیلا اور سنگا جیسے ہمالیہ کو سر کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ ٹیسٹ کرکٹ میں دونوں آخری بار کھیلنے کے لیے میدان میں اترے کیونکہ یہ مہیلا جے وردھنے کے ٹیسٹ کیریئر کی آخری اننگز میں جس میں وہ دن کے اختتام تک 49 رنز بنا چکے تھے جبکہ دوسرے اینڈ پر سنگاکارا 54 رنز کے ساتھ ڈٹے ہوئے تھے اور سری لنکا کا مجموعہ 177 رنز تک پہنچ چکا تھا۔

165 رنز کی واضح برتری ملنے کے بعد اب سری لنکا میچ پر واقعی حاوی ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور اب پاکستان کو میچ بچانا ہے تو اسے سری لنکا کی دوسری اننگز کی بساط جلد از جلد لپیٹنی ہوگی بصورت دیگر ٹوٹی پھوٹی وکٹ پر چوتھی اننگز میں رنگانا ہیراتھ کا سامنا کرنا تصور سے بھی زیادہ مشکل ہوگا۔ پاکستان کے لیے مشکلات اس طرح بڑھ بھی گئی ہیں کہ جنید خان ڈریسنگ روم میں چکرا کر گر گئے تھے جس کی وجہ سے وہ دن کے آخری دو سیشنز نہیں کھیل پائے۔ جنید بیٹنگ کے دوران حریف باؤلر دھمیکا پرساد کا ایک باؤنسر ہیلمٹ پر کھا بیٹھے تھے جس کے بعد انہوں نے بیٹنگ تومکمل کی لیکن ہسپتال روانگی اور ٹیسٹوں کی وجہ سے مزید نہیں کھیل پائے۔

کولمبو ٹیسٹ کے جھکاؤ کا حقیقی فیصلہ تو چوتھے روز سری لنکا کی دوسری اننگز کے ساتھ ہوگا لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے بلے بازوں نے جس طرح پہلی اننگز میں رنگانا ہیراتھ کے سامنے ہتھیار ڈالے، اس سے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ مقابلہ سری لنکا کی جیب میں ہے۔ یعنی مسلسل تیسرے دورۂ سری لنکا میں ناکامی پاکستان کا انتظار کررہی ہے۔ یا پھر شارجہ جیسے کسی معجزے کی توقع کی جائے۔