آپ کی حمایت کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں، اگر ۔۔۔۔
میں پرسکون تھا، جس طرح کہ میرا معمول ہے، ٹانگ پر ٹانگ دھرے چند کتب کا مطالعہ کرتا ہوا اور کافی کی چسکیاں لیتا ہوا۔ اور دوست میری اس 'سنگ دلی' پر حیران تھے کہ آخر تم اتنے خبطی اور وطن دشمن کیسے ہو سکتے ہو؟ ورلڈ کپ میں پاکستان کی مسلسل دو شکستوں پر بھی مطمئن دکھائی دیتے ہو؟ بھارت کے خلاف شکست کو تو ضرور مجھے جذباتی کردینا چاہیے تھا۔ دوست اتنا غلط بھی نہیں کہہ رہے تھے، لیکن میں اگر مطمئن تھا تو اس کی وجوہات تھیں۔ بھارت سے ہارنا، اور اس کے بعد ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں شکست کھانا، اس لیے بہتر تھا کہ ہمیں معلوم ہوگیا کہ پاکستان کرکٹ کے حقیقی پرستار کون ہیں اور برساتی فینز کون ہیں؟ چلیں، آپ انہیں برائلر یا بناسپتی گھی فین ہی کہہ لیں۔
ویسے بیچارے ان "شائقین" کا بھی زیادہ قصور نہیں ہے، جنہوں نے ابھی پچھلی دہائی میں ہی شعور کی آنکھیں کھولی ہیں۔ وہ 1990ء کی دہائی کی پاکستانی کرکٹ ٹیم کی داستانیں سن کر بڑے ہوئے ہیں۔ اور ہمارے کئی مسائل کی طرح ایک یہ بھی ہے کہ دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح ہم کرکٹ میں بھی ماضی سے جڑے رہتے ہیں۔ اس پر طرّہ یہ کہ ہمارا معیار 1990ء کی دہائی اور خاص طور پر 1992ء ہے۔ کھیل ہو یا کوئی بھی شعبہ، جب کوئی قوم یا گروہ ماضی سے چمٹ جاتا ہے، تو وہ حال کو قبول نہیں کرتا اور تبدیلی اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ بس یہی ہمارے اور کرکٹ ٹیم کے ساتھ ہو رہا ہے۔
میرے خیال میں کرکٹ شائقین کی اس نئی نسل کو سخت جان پرستار بننے کے لیے ابھی بہت کچھ دیکھنا ہے۔ انہیں سرے سے نہیں معلوم کہ اپنے "دور عروج" میں پاکستان کو 1996ء میں بنگلور کے میدان پر بھارت کے ہاتھوں عالمی کپ کوارٹر فائنل ہارتے دیکھنا کیسا تھا۔ ان کو اندازہ ہی نہیں کہ پاکستان کو اپنے میدانوں پر زمبابوے کے ہاتھوں ٹیسٹ شکست کیسے ہضم کی گئی ہوگی۔ ان پرستاروں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ بھارت کے میدانوں پر اپنی ٹیم کو انتہائی مخالفت کا سامنا کرتے ہوئے کھیلتے دیکھنا کیسا تھا۔ اور اس بات کو تو شاید سرے سے ہی نہ سمجھ پائیں کہ 1999ء میں اپنے ٹوٹے ہوئے خوابوں کے ساتھ آگے بڑھنا کیسا تھا۔ یہ پرانی داستانوں کو سن کر بڑے ہوئے ہیں اور بچکانہ سی خواہش رکھتے ہیں کہ ٹیم تاریخ کے ان سپر ہیروز کی طرح کھیلے ۔
ہاں! ٹیم کی کارکردگی اچھی نہیں، اس میں خامیاں پائی جاتی ہیں، اور ہاں! اس وقت صورتحال بھی سخت مایوس کن ہے لیکن یہ تمام پہلو کسی کو یہ اختیار نہیں دیتے کہ وہ بغیر کسی ثبوت کے ان کھلاڑیوں پر بدعنوانی کا الزام لگائے۔ ہمارے اعتماد کا تو یہ عالم ہے کہ کرکٹ میں جو بھی ہمارے 'نازک مزاج' کو نہیں بھاتا، ہم اس پر 'فکس' کی مہر لگا دیتے ہیں۔ یہ سب رونا دھونا سوشل میڈیا پر مچایا گیا۔ کیا آپ کو معمولی سا اندازہ بھی ہے کہ غصے میں کسی کو فکسر قرار دینے کے بعد عالمی سطح پر قوم کے بارے میں کیا تاثر جاتا ہوگا:
غصہ آنا فطری امر ہے، کبھی کبھار یہ بہتر بھی ہوتا ہے کیونکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم ابھی زندہ ہیں لیکن یہ آپ کو شائستگی اور اخلاق کی سرحد پار کرنے کا حق نہیں دیتا۔ اگر آپ اس کو عبور کرتے ہیں تو اس قوم اور ملک کو دنیا میں سب سے بہتر کہنا چھوڑ دیں کیونکہ کسی بھی ٹیم، گروہ، فرد یا ملک کو وہ نظم و ضبط اور رویہ ظاہر کرتا ہے جو شکست کا سامنا کرتے ہوئے وہ روا رکھتے ہیں۔
کیونکہ میں نے شعور کی آنکھیں 1990ء کی دہائی میں کھولیں، اس لیے پاکستان کے عظیم ترین بینڈز میں سے ایک "وائٹل سائنز" کے ایک خوبصورت گانے کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا، خاص طور پر اس کے اس مصرعے کی طرف کہ "ہارو گے، تبھی تم کو، مزا آئے گا جیت کا۔" اگر آپ جیسے برساتی حامیوں کی حمایت اتنی نازک ہے تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں، ہمیں تو یقین ہے کہ ہم خاک تلے سے ایک بار پھر ابھریں گے۔