قومی کرکٹ اور میڈیا کا مچھلی بازار

0 1,098

جب سرفراز احمد پہلی بار پاکستان کرکٹ کے افق پر نمودار ہوئے تو ان کی وکٹ کیپنگ صلاحیتوں کی تعریف زبان زدِعام تھی۔ پاکستان کامران اکمل کی حیثیت سے ایسے باصلاحیت وکٹ کیپر کی تلاش میں تھا جو وکٹ کیپنگ کے ساتھ بلے بازی بھی کرسکتا ہو۔ اس پس منظر میں سرفراز احمد جب پہلی بار بلے بازی کے لیے میدان میں اترے تو ان کی تکنیک نے پہلی ہی نظر میں مایوس کیا۔ اس لیے قومی کرکٹ کے کرتا دھرتاؤں نے اس باصلاحیت کھلاڑی کو بیک جنبشِ قلم رد کردیا۔ کسی حد تک یہ صحیح بھی تھا کیونکہ کامران اکمل بلے بازی میں سرفراز احمد سے کہیں زیادہ بہتر تھے۔ لیکن 2010ء میں کامران کی انتہائی خراب کارکردگی کی وجہ سے سرفراز کو ٹیسٹ کرکٹ میں موقع دیا گیا، لیکن یہاں بھی وہ متاثر نہ کرسکے۔

بعد ازاں اکمل برادران اور ذوالقرنین حیدر کی ناقابل اعتبار کارکردگی اور بارہا ناکامیوں سے ٹیم انتظامیہ کے پاس کوئی راستہ نہ بچا تو تین سال بعد سرفراز احمد کو بادل نخواستہ شامل کیا گیا۔ یہ واپسی کے بعد پہلا نظارہ اس لیے حیران کن تھا کہ جتنے عرصے سرفراز باہر رہے، اپنی بلے بازی پر انہوں نے اتنی ہی محنت کی تھی۔ پہلے سری لنکا کے خلاف سنچری، پھر متحدہ عرب امارات میں آسٹریلیا کے خلاف 109 رنز کی شاندار اننگز نے سرفراز کو پاکستان ٹیسٹ دستے کا مستقل رکن بنا دیا۔البتہ ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی سرفراز کی جگہ اب بھی محفوظ نہیں تھی کیونکہ عمر اکمل وکٹ کیپنگ کی ذمہ داریاں نبھا سکتے تھے اور یوں ٹیم کے پاس ایک اضافی گیندباز شامل کرنے کا آپشن بھی رہتا، وہی حکمت عملی جو پاکستان نے جاری عالمی کپ کے ابتدائی مقابلوں میں بھی اپنائے رکھی۔ لیکن آپ کو یاد ہوگا کہ ماضی میں یہی لائحہ عمل بھارت نے راہول ڈریوڈ کے لیے اپنایا تھا اور حال ہی میں جنوبی افریقہ بھی ابراہم ڈی ولیئرز کو کامیابی کے ساتھ وکٹ کیپر کی حیثیت سے کھلا رہا تھا۔ لیکن بات جب پاکستان کی ہو تو ہم عمومی اصول یا طریقہ کار کا حوالہ نہیں دے سکتے کیونکہ تقریباً ہر معاملے میں ہماری گنگا الٹی ہی بہتی ہے لیکن ہمارا فرض ہے کہ ہم اصول اور حق کی بات کریں۔

وقار یونس پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ ہیں اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ انہوں نے باقاعدہ معاہدہ کیا ہے جس کے تحت وہ ٹیم کپتان اور مینیجر کے مشورے اور رضامندی کے ساتھ ٹیم تشکیل دے سکتے ہیں۔ قومی سلیکشن کمیٹی کی جانب سے منتخب کیے گئے 15 لڑکوں میں سے کون کھیلے گا، کون باہر بیٹھے گا اور ٹیم کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ یہ صرف اور صرف ٹیم انتظامیہ کا اختیار ہے۔ پاکستان عالمی کپ جیت گیا تو اس کا سہرا اور اگر خدانخواستہ باہر ہوگیا تو تو بھی تمام تر ذمہ داری اسی انتظامیہ پر عائد ہوگی۔ اگر کرکٹ بورڈ عالمی کپ کے ٹیم کی مجموعی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد آگے سمجھے کہ وقار یونس اپنے فرائض میں ناکام ہو چکے ہیں تو ان کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ انہیں کوچ کے عہدے سے برطرف کردے۔ بلاشبہ آپ کے پاس وقار یونس، مصباح الحق اور ٹیم کے تمام کھلاڑیوں پر تنقید کا پورا حق ہے لیکن جو طوفانِ بدتمیزی روایتی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر مچایا گیا ہے، وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ بھانت بھانت کے تجزیہ کار جب بے پر کی اڑا رہے ہوں تو ہر عقلِ سلیم رکھنے والا آدمی سر پکڑ کر رہ جاتا ہے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف جیت کے بعد عامر سہیل یہ الزام لگا رہے ہیں کہ سرفراز احمد کو نہ کھلانے کی وجہ دراصل احمد شہزاد کو کپتان بنانا ہے کیونکہ مصباح کے بعد سرفراز ہی قیادت کے مضبوط امیدوار ہیں۔ صحافی عین عالمی کپ کے دوران سرفراز احمد کے انتخاب کو سیاسی رنگ دے کر اور کوچ کے ساتھ اندرونی جھگڑوں کا شوشہ چھوڑ رہے ہیں۔ عین اُس وقت جب وقار یونس ایک شاندار کامیابی کے بعد ذرائع ابلاغ کے سامنے آئے تھے۔

خدارا! اس خوبصورت کھیل کو یوں تماشہ نہ بناؤ۔ پاکستان کرکٹ پہلے ہی پستی کی طرف جا رہی ہے اور عامر سہیل کا "تجزیہ" دیکھ کر مجھے وہ وقت یاد آ رہا ہے جب قومی ہاکی زوال پذیر تھی، اندرونی لڑائیاں، کھلاڑیوں کی ایک دوسرے پر الزام تراشیاں ای ہاکی انتظامیہ کی ان جھگڑوں میں شرکت یا انہیں نمٹانے کے لیے مصروفیات ہی سامنے آ رہی تھیں، دنیا بھر میں ہاکی ترقی کرتے کرتے یہاں پہنچ گئی کہ ہاکی کی سب سے چھوٹی ٹیمیں ارجنٹینا،جنوبی کوریا یہاں تک کہ چین بھی پاکستان کو شکست دینے لگے۔

پاکستان کرکٹ اس وقت پہلے ہی مسائل کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے اس پر میڈیا نے جو مچھلی بازار سجا رکھا ہے اس سے غیر ضروری دباؤ پیدا ہو رہا ہے جو قومی کرکٹ کے مفاد میں نہیں۔ سابق کھلاڑی ہی آج پاکستان کرکٹ کی رہنمائی کرسکتے ہیں لیکن ماضی کی چپقلشوں کی وجہ سے اگر یہ سابق کھلاڑی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے پر لگے رہے تو جس کرکٹ نے انہیں عزت، شہرت اور دولت دی وہ لبِ گور پہنچ جائے گی۔