قومی ٹی ٹوئنٹی کپ کا انعقاد کب ہوگا؟ فیصلہ جلد متوقع!
کامیاب دورۂ سری لنکا کے بعد اس وقت قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی آرام کر رہے ہیں اور اپنا فارغ وقت گھر والوں کے ساتھ گزار رہے ہیں جس کے بعد ستمبر سے ایک مصروف سیزن کا آغاز ہونے جا رہا ہے جو اگلے سال مارچ تک جاری رہے گا۔ پے در پے مقابلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اب پاکستان کرکٹ بورڈ اس سوچ میں پڑ گیا ہے کہ قومی ٹی ٹوئنٹی کپ کے لیے کس وقت کا انتخاب کیا جائے تاکہ اس میں قومی کھلاڑی بھی شامل ہوسکیں۔
شیڈول کے مطابق قومی ٹیم 24 ستمبر سے 5 اکتوبر تک زمبابوے کا دورہ کررہی ہے جہاں 3 ٹی ٹوئنٹی میچز اور اتنے ہی ایک روزہ مقابلے کھیلے جائیں گے۔ اس کے فوری بعد اکتوبر اور نومبر میں انگلستان کے خلاف متحدہ عرب امارات میں اہم سیریز کھیلی جائے گی۔ انگلستان کے بعد اسی مقام پر بھارت سے سیریز متوقع ہے لیکن ابھی تک اس سیریز کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھا۔ پھر دورۂ نیوزی لینڈ کے بعد مصروفیت کا اختتام ہوگا اگلے سال مارچ میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی پر، جو بھارت میں کھیلا جائے گا۔
ان مصروفیات کو دیکھتے ہوئے ایک رائے تو یہ سامنے آئی ہے کہ ٹورنامنٹ کا آغاز یکم ستمبر سے کرلیا جائے تاکہ اہم کھلاڑی اس میں شریک ہوسکیں۔ اگر اس رائے کے مطابق چلا جائے تو واقعی بڑے نام شامل ہوسکیں گے لیکن بارش کے خطرے نے بورڈ کو پریشان کیا ہوا ہے۔ اب تک کی معلومات کے مطابق ٹورنامنٹ کی میزبانی کے لیے ملتان اور راولپنڈی مضبوط امیدوار ہیں لیکن انہی علاقوں میں بارش کے امکانات بھی زیادہ ہیں۔ بہرحال، حتمی فیصلہ ایک دو روز میں متوقع ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ ٹی ٹوئنٹی ٹیموں کا انتخاب نئے فارمیٹ کے مطابق ہوگا یعنی گولڈن اور سلور جیسے زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ گولڈن میں 6 بڑےشہروں کی ٹیمیں براہ راست کوالیفائی کریں گی جبکہ بقیہ 2 ٹیموں کا انتخاب سلور کیٹگری کے کوالیفائنگ راؤنڈ کے بعد کیا جائے گا جس میں سرفہرست 2 ٹیمیں حتمی راؤنڈ کھیلنے کی اہل ہوں گی۔
اس نئے فارمیٹ پر پاکستان کرکٹ بورڈ اور کراچی سٹی ایسوسی ایشن کے درمیان زبردست تنازع کھڑا ہوا ہے۔ کے سی سی اے کے کا کہنا ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر سے محض ایک ٹیم کا براہ راست انتخاب ناانصافی ہے جبکہ بورڈ کا کہنا ہے کہ کراچی میں بہت قابل کھلاڑی موجود ہیں اور وہ کوالیفائنگ راؤنڈ کھیل کر بھی حتمی مرحلے کا حصہ بن سکتے ہیں۔ یہ تنازع اب تک تو جاری ہے اور نجانے کب تک رہے گا۔ لیکن اس کی وجہ سے کراچی نے اب تک اپنی ٹیم کا اعلان نہیں کیا اور اگر معاملہ مزید شدت اختیار کرگیا جو صورتحال مزید گمبھیر بھی ہوسکتی ہے۔ اس لیے ٹورنامنٹ کی حتمی تاریخ کے ساتھ ساتھ یہ دیکھنا بھی اہم ہوگا کہ بورڈ اپنے موقف سے پیچھے ہٹتا ہے یا کے سی سی اے، لیکن اگر دونوں اپنی ضد پر اڑے رہے تو قومی کرکٹ کو نقصان پہنچے گا اور اس اہم ٹورنامنٹ کی رونقیں ماند پڑ جائیں گی۔