انگلستان کے شکست سے بچنے کے امکانات ”صفر“
یہ برطانیہ کے روزنامہ "ٹیلی گراف" کے معروف صحافی شلڈ بیری کی تحریر کا ترجمہ و تلخیص ہے، جو انہوں نے پاک-انگلستان دبئی ٹیسٹ کےچوتھے دن کے اختتام پر لکھی
انگلستان کے کھلاڑیوں کو متحدہ عرب امارات پہنچے ہوئے 25 دن گزر چکے ہیں اور ہر روز صبح اٹھتے ہی اپنے کمرے کے پردے ہٹانے پر انہوں نے ایک ہی منظر دیکھا ہے، صاف نیلا آسمان۔ اب 26 ویں دن وہ اس منظر میں ضرور تبدیلی چاہیں گے، کیونکہ ان کے پاس دوسرا ٹیسٹ بچانے کے لیے صرف سات وکٹیں ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہےکہ دبئی میں سال میں کوئی ہفتہ بھر ہی بارش ہوتی ہے۔
انگلستان کو آخری اننگز میں 140 سے زیادہ اوورز کھیلنے ہیں اور گزشتہ چند سالوں میں وہ دو مرتبہ ایسی ہی صورتحال میں مقابلہ بچانے میں کامیاب ہوا ہے۔ البتہ حالیہ موسم گرما میں آسٹریلیا کے خلاف لارڈز میں ان کی کوشش محض 37 اوورز میں تمام ہوئی، جب وہ 103 رنز پر ڈھیر ہونے کے بعد 405 رنز سے شکست کھا گئے۔
لیکن 2010ء میں کیپ ٹاؤن میں اور 2013ء میں آکلینڈ میں صرف ایک وکٹ ہی باقی رہ گئی تھی، جب انگلستان یقینی شکست سے بچا۔ لیکن مذکورہ دونوں مواقع میں اور یہاں دبئی میں پاکستان کے خلاف پہلی اننگز میں بری طرح لڑکھڑا جانے کے بعد کی حالت میں بنیادی فرق ہے۔ کیپ ٹاؤن اور آکلینڈ کی وکٹیں دبئی سے کہیں زیادہ سیدھی تھیں، جو اب خشک ہونے کے بعد گرمی کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور ایک دو جگہ پر ایسے ناہموار اور کھردرے نشانات پڑ چکے ہیں جن سے پاکستان کے اسپن گیندباز خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہاں پڑنے والی چند گیندیں تو نہ صرف بلے بازوں بلکہ وکٹ کیپر اور سلپ میں کھڑے فیلڈروں کو بھی دھوکہ دے چکی ہیں۔
دوسری بات یہ کہ ان دونوں مواقع پر انگلستان کے پاس آخری کھلاڑی زیادہ تجربہ کار تھے۔ کیپ ٹاؤن اور آکلینڈ میں چار گھنٹے تک کریز سنبھالنے والے این بیل یہاں ایک اٹھتی ہوئی گیند کی راہ سے اپنے دستانے نہ ہٹا سکے۔ کپ ٹاؤن میں کولنگ ووڈ نے جبکہ آکلینڈ میں میٹ پرائیر اس طرح کریز پر جم گئے تھے جس طرح کسی بھی دستے کا مضبوط ترین نوجوان اپنی تمام تر صلاحیتوں کو مجتمع کرکے میدان مار لیتا ہے۔
جو روٹ کے نوجوان کاندھوں پر ایک پختہ دماغ ضرور موجود ہے اور یاسر شاہ اور ذوالفقار بابر کا مقابلہ کرنے کی ان میں صلاحیت بھی موجود ہے۔ بالخصوص ایسے موقع پر جب دونوں گیند باز دائیں ہاتھ سے کھیلنے والے بیٹسمین کی ٹانگوں کے قریب موجود ناہموار نشان کا خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ روٹ کی پرسکون رہنے کی عادت اس نوعمری میں بھی انہیں ایک استاد کا درجہ دے رہی ہے لیکن اجنبی اور انتہائی مشکل حالات میں دوسرے کھلاڑیوں کے لیے زیادہ دیر تک ٹکے رہنا مشکل ہے۔
جب چوتھے دن کے آغاز پر پاکستان 358 رنز کی برتری کے ساتھ میدان میں اترا تو انگلستان کے کھلاڑی کسی تابوت بردار کی طرح صاف ستھرے، رنجیدہ اور خاموش لگ رہے تھے۔ ان کے حوصلے تو نہیں ٹوٹے تھے، لیکن وہ پہلی اننگز میں ڈھیر ہوجانے کے بعد شرمسار ضرور تھے۔ انہیں اچھی طرح یہ بھی معلوم ہوگا کہ تجہیز و تکفین کیسے کی جاتی ہے۔
انگلستان کے لیے 144 اوورز میں 491 رنز کا ہدف جمع کرنے سے قبل پاکستان کے مصباح الحق سنچری نہ بنا سکے لیکن یونس خان تہرے ہندسے تک ضرور پہنچے۔ مصباح دن میں اپنے پہلے ہی جارحانہ شاٹ پر آؤٹ ہوئے، وہ بھی گزشتہ روز کے اسکور میں کسی رن کا اضافہ کیے بغیر، جو ظاہر کرتا ہے کہ یہاں اننگز کا آغاز کرنا کتنا مشکل ہے۔ اور یہ بات بھی کہ پہلے دن کے آخری اوورز میں انہوں نے جلد از جلد اپنی سنچری تک پہنچ کر کتنا مناسب فیصلہ کیا تھا۔
یونس 31 ویں سنچری کے ساتھ سب سے زیادہ تہرے ہندسے کی اننگز کھیلنے والے سرفہرست 10 بلے بازوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ اس سے بھی زبردست بات یہ کہ وہ ان میں سے کسی بھی دوسرے بلے باز سے زیادہ سنچری تناسب رکھتے ہیں، یعنی ہر تین سے کچھ زیادہ ٹیسٹ مقابلوں میں ایک سنچری۔ بدترین سالوں میں پاکستان کے بہترین بلے باز کی حیثیت سے انہیں اب بھی وہ مقام حاصل نہیں ہوا، جس پر ایک زمانے میں انضمام الحق اور محمد یوسف اور ان سے قبل جاوید میانداد اور ظہیر عباس فائز تھے۔
انگلستان کے اسپن گیندبازوں کے ساتھ اسد شفیق نے بھی اچھا برتاؤ نہیں کیا۔ دونوں اننگز میں پھینکے گئے 45 اوورز میں عادل رشید نے 191 رنز دے کر صرف دو وکٹیں لی ہیں۔ پاکستان کے پاس نمبر چھ پوزیشن پر بھی ایک سخت کوش بلے باز موجود ہے جس کا سیریز اوسط 68 ہے جبکہ انگلستان کے پاس بین اسٹوکس ہے جسے ایشیا میں بلے بازی ابھی سیکھنی ہے۔
روٹ اور بیل کو اننگز کے دسویں اوور میں ہی میدان سنبھالنا پڑا۔ گیند کو بلے پر لانے کی کوشش معین علی کی بساط سے باہر تھی، وہ دوسری سلپ میں کیچ دے گئے۔ اب ان کے پاس بحیثیت تجرباتی اوپنر خود کو ثابت کرنے کے لیے شاید صرف ایک مزید ٹیسٹ ہوگا۔ جبکہ ایلسٹر کک نے یاسر شاہ کی ناہموار جگہ پر پڑنے والی گیند کو سویپ کھیلنے کی کوشش کی اور کیچ دے دیا۔ حالانکہ کک وکٹوں کے درمیان اچھی طرح دوڑتے دکھائی نہیں دے رہے تھے، اس کے باوجود انگلستان کا کہنا ہے کہ وہ زخمی نہیں ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ٹیم کے لیے کتنے اہم ہیں۔ کپتان کے بغیر شارجہ میں انگلستان کے جیتنے کی کوئی امید نہ ہوگی۔
شام 4 بجے سے کچھ پہلے، جب اسٹیڈیم کی بلند و بالا چھت نے بلے بازوں پر سایہ قائم کردیا تھا، وہاب ریاض بھی ان پر سایہ فگن ہوگئے۔ ان کا ابتدائی حملہ صرف تین اوورز پر مشتمل تھا۔ اس لیے وہ چند باؤنسرز پھینکنے کے لیے پر تولتے واپس آئے۔ بہرحال، بیل پاکستان کے ریویو پر آؤٹ ہوئے کیونکہ ظاہر ہوگیا تھا کہ گیند کو چھوڑنے کی کوشش کے دوران وہ اپنے دستانے اس کی راہ سے ہٹا نہیں سکے اور گیند سلپ میں جانے سے پہلے ان کے دستانوں کو چھوتے ہوئے گئی۔
اس کے باوجود اصل خطرہ یاسر شاہ اور ذوالفقار بابر سے ہے۔ یاسر کی گیند میں ٹرن اور ذولفی کی گیند میں باؤنس بڑھتا جا رہا ہے۔ اس لیے انگلستان کے مقابلہ بچانے کے امکانات اب اتنے ہی ہیں، جتنے کہ دبئی میں بارش کے۔