جنوبی افریقہ کے بڑے نام بھارتی اسپنرز کے سامنے ڈھیر

0 1,032

کیا آپ یقین کریں گے کہ کسی ٹیسٹ میچ میں دونوں ٹیموں نے اپنی دونوں اننگز  مکمل کھیلی ہوں یعنی کل ملا کر 40 کھلاڑی آوٹ ہوئے ہوں اور پھر بھی میچ صرف پونے تین دن میں ختم ہوجائے؟ اگر نہیں تو یقین کرلیجیے کہ ایسا آج بھارت اور جنوبی افریقہ کے درمیان کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میں پوچکا ہے جس میں 218 رنز کے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے جنوبی افریقہ کی پوری ٹیم محض 108 رنز پر ڈھیر ہوگئی، اور یوں بھارت کو پہلے ٹیسٹ میچ میں 109 رنز کامیابی نصیب ہوئی۔

جب دوسرے دن کے کھیل کا اختتام ہوا تو بھارت کے 124 رنز پر صرف دو کھلاڑی آوٹ ہوئے تھے اور چیتشور پجارا اور ویرات کوہلی جیسے خطرناک بلے باز وکٹ پر موجود تھے جبکہ ٹٰیم کو 142 رنز کی برتری حاصل تھی، اِس صورتحال کو دیکھنے کے بعد اندازہ  تھا کہ بھارت کم از کم تین سو یا تین سے زیادہ کا حدف دینے میں کامیاب ہوجائے گا۔

مگر جب تیسرے دن کے کھیل کا آغاز ہوا تو سب بدلا بدلا سے محسوس ہورہا تھا۔ اگرچہ بھارت کی تیسری وکٹ تو 161 پر گری، مگر پھر اُس کے بعد وکٹیں گرتی ہی رہیں، یہاں تک کہ پوری بھارتی ٹیم محض 200 رنز پر آوٹ ہوگئی، یعنی آخری سات وکٹیں صرف 39 رنز پر گری۔

اِس کامیاب حملے کے پیچھے عمران طاہر اور سائمن ہارمر کا ہاتھ تھا جنہوں نے چار، چار وکٹیں لے کر اپنی ٹیم کو دوبارہ میچ میں لانے کے لیے اہم ترین کردار ادا کیا۔

اب جنوبی افریقہ کو میچ جیتنے کے لیے چاہیے تو 218 رنز تھے جو کہنے میں تو آسان لگ رہے ہیں مگر موہالی کی وکٹ پر اِس ہدف کو حاصل کرنا دن میں تارے دیکھنے کے مترادف تھا۔ کیونکہ پہلے اننگ میں بھارت کے 201 کے جواب میں تمام تر کوشش کے باوجود جنوبی افریقہ 183 رنز ہی بناسکی تھی، تو پھر چوتھی اننگ میں ایسا کرنا تو مزید مشکل دکھائی دے رہا تھا

جنوبی افریقہ کو میچ جیتنے کے لیے کچھ الگ کرنے  اور کسی غیر معمولی کارکردگی کی ضرورت تھی، اور اگر سچ پوچھا جائے تو جنوبی افریقہ نے یہ سب کچھ کیا۔ پہلے ورنان فلنڈر کو بطور اوپنر بھیج کر غیر معمولی فیصلہ کیا، جو ٹیم کے بالکل بھی کام نہیں آیا اور وہ اننگ کے دوسرے ہی اوور میں صرف ایک رن بناکر رونڈرا جڈیجا کی گیند پر ایل بھی ڈبلیو ہوگئے۔ پھر پہلی اننگ میں ٓصفر پر آوٹ ہونے والے فاف ڈوپلیسز میدان میں اُترے جو دوسری اننگ میں بھی ناکام ثابت ہوئے، اب کی بار ایشوین کی گیند پر صرف ایک رن بناکر چلتے بنے۔ ا

اِن مشکل حالات میں کپتان ہاشم آملہ میدان میں اُترے اور جنوبی افریقہ کی فتح کے لیے ضروری تھا کہ آملہ وکٹ پر رکیں اور ذمہ دارانہ اننگ سے ٹیم کی فتح میں اپنا کردار ادا کریں مگر جب ٹیم کا اسکور دس تک پہنچا تو جڈیجا کی گیند پر آملہ بولڈ ہوگئے اور یوں اُن کی ٹیم کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا۔

آملہ کے بعد اگر کسی کھلاڑی سے ٹیم کو کھڑے رہنے کی اُمید تھی وہ ابراہم ڈی ویلئیرز تھے جنہوں نے پہلی اننگ میں سب سے زیادہ 63 رنز بنائے تھے۔ ڈی ویلئیرز نے وکٹ پر موجود ڈین ایلگر کے ساتھ شراکت داری قائم کرنے کی کوشش کی مگر وہ بھی بھارتی اسپنرز کا زیادہ دیر تک مقابلہ نہیں کرسکے اور 16 رنز بناکر پچھلی اننگ کی طرح اِس اننگ میں بھی امیت مشرا کی گیند پر بولڈ ہوگئے، اِس وقت ٹیم کا اسکور 32 تھا جبکہ چار کھلاڑی آوٹ ہوچکے تھے۔

اِس خراب وکٹ پر اگر رُک کر اور احتیاط سے بلے بازی کی جاتی تو مقابلہ کیا جاسکتا تھا مگر جب اہم اور ذمہ دار ترین بلے باز ایسا نہ کرسکے تو بعد میں آنے والے بھلا ایسا کیسے کرسکتے تھے اور ایک وقت وہ آیا جب بھارتی ٹیم کے اسپن اٹیک نے جنوبی افریقہ کی پوری ٹیم 109 رنز پر ڈھیر کرکے چار ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں ایک۔صفر کی برتری حاصل کرلی۔

جنوبی افریقہ کی جانب سے ستیان وین زیال نے سب سے زیادہ 36 رنز بنائے، جبکہ ٹیم کے چھ کھلاڑی تو دہرے ہندسے تک بھی نہیں پہنچ سکے تھے۔

بھارت کی جانب سے رونڈرا جڈیجا نے سب سے زیادہ پانچ وکٹیں حاصل کیں، جبکہ پہلی اننگ میں  بھی اُنہوں نے تین وکٹیں حاصل کی تھیں، اِسی شاندار کارکردگی کی بنیاد پر اُنہیں میچ کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔

تیسرا دن جنوبی افریقہ کے لیے صرف اِس لیے افسوسناک نہیں ہوگا کہ میچ میں شکست ہوئی، بلکہ ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ اُن کا صف اول کا فاسٹ بالر ڈیل اسٹین انجری کا شکار ہوگئے اور 14 نومبر سے بنگلور کے میدان میں شروع ہونے والے دوسرے ٹیسٹ میچ میں اُن کی شرکت مشکوک بتائی جارہی ہے۔