پاکستان کرکٹ کا نوحہ، ملک میں کھیلوں کے زوال کا نیا باب

0 1,250

کیا کسی کو یاد ہے کہ پاکستان نے محدود طرز کی کرکٹ میں آخری بار کوئی بڑی کامیابی کب حاصل کی تھی؟ جب 'گرین شرٹس' کسی بڑی ٹیم کو واضح شکست دے کر فتح یاب ہوئے ہوں؟ 'رات گئی، بات گئی' والی یادداشت رکھنے والی قوم میں سے شاید ہی چند فیصد کو "اتنی پرانی باتیں" یاد ہوں۔ ایک ایسے دور میں جب دنیائے کرکٹ میں بنگلہ دیش تک بہتر منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے ذریعے آگے بڑھ رہا ہے، پاکستان اسکوائش اور ہاکی جیسے کھیلوں پر حکمرانی گنوانے کے بعد اب کرکٹ کی تباہی کا تماشا دیکھ رہا ہے۔

ایک ایسے مرحلے پر جب پاکستان کرکٹ 'سپر لیگ' کے ذریعے ایک نئے سفر پر روانہ ہو رہی ہے، ان پرانے سوالات کو دہرانا اور خامیوں کا ادراک کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ اگر لیگ میں بھی یہی غلطیاں دہرائی گئیں تو ان کا نتیجہ بھی وہی نکلے گا جو قومی کرکٹ میں گزشتہ ڈیڑھ دو دہائیوں میں سامنے آیا ہے۔ پاکستان کرکٹ گزشتہ کم از کم ایک دہائی سے مسلسل زوال پذیر ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ کسی نے اس "پتھر" کو ڈھلوان کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ وہ کون سی غلطی ہے جس کے بعد شکست نے ٹھکانہ کرلیا ہے۔ آسان ترین جواب ہے جب باغبان ہی دشمنی پر اتر آئے تو باغ کے بار آور ہونے کا بھلا کیا تصور؟ جب کرکٹ کو ملک و قوم کا کھیل سمجھنے کے بجائے جاگیر سمجھا جائے گا، جب میرٹ کے بجائے ذاتی تعلقات کی بنیاد پر تعیناتیاں ہوں گی تو تباہی کے بیج تو بو ہی دیے گئے۔ اندازہ کریں جب کرکٹ کے بارے میں واجبی سی معلومات رکھنے والے نواز شریف پاکستان کرکٹ بورڈ کے پیٹرن ان چیف ہوں، تو اس شعبے میں میرٹ کی بات کرنا ہی بیکار ہو جاتا ہے اور نجم سیٹھی کی بورڈ کے اعلیٰ عہدے پر موجودگی اس بات کا ثبوت ہے۔

najam-sethi-pcb

اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کے سیاہ و سفید کے مالک نجم سیٹھی ہیں۔ جن کا مکمل میرٹ بس اتنا ہے کہ کسی "نامعلوم کارنامے" کو انجام دینے کے صلے میں قومی کرکٹ کو بطور انعام ان کی جھولی میں ڈال دیا گیا ہے۔ تو ایسے شخص سے توقع رکھنا ہے کہ وہ پرخلوص انداز میں کام کرکے کرکٹ میں انقلابی تبدیلیوں کا سرخیل بنے گا، اندھے سے راستہ پوچھنے کے مترادف ہے۔

پھر جب نجم سیٹھی کی تعیناتی پر ہر طرف سے سوالات اٹھنا شروع ہوئے تو چیئرمین کے عہدے کے لیے 80 سالہ سابق بیوروکریٹ شہریار خان کو سامنے لایا گیا۔ جن کی قابلیت محض اتنی ہے کہ موصوف بھارت میں سفارت کاری کرتے رہے ہیں اور ان کے چیئرمین بننے سے پاک-بھارت کرکٹ تعلقات میں بہتری آنے کا امکان ہوگا اور یوں پاکستان کو بہت فائدہ ملے گا۔ جتنا فائدہ اب تک لیا جاچکا ہے وہ سب کے سامنے ہے کہ موصوف کو خود بھارت بلوا کر ملاقات سے انکار کردیا گیا۔ بہرحال، کرکٹ بہتر تو کیا ہوتی مزید ابتر ضرور ہوگئی۔ اب کرکٹ جن 'بوڑھے' ہاتھوں میں ہے ان سے نئی اور متحرک ٹیم سامنے لانے کی توقع عبث ہے۔ خدشات کے عین مطابق انہوں نے پچیس، تیس سال پرانے، چلے ہوئے کارتوسوں، ہی سے کام چلایا اور پاکستان کرکٹ بورڈ آئینی لبادہ پہنا کر دوبارہ 'سٹیٹس کو' کو بحال کردیا۔

ان "عظیم" صلاحیتوں کے حامل بورڈ کے بطن سے وقار یونس جیسا کوچ اور معین خان جیسا سلیکٹر پیدا نہ ہوتا تو یقیناً حیرانی ہوتی کیونکہ "بزرگان" کی نظریں زیادہ دور تک نہیں جا سکتی تھیں، ایک ایسے کوچ پر جو جدید کرکٹ کے تقاضے سمجھے اور کوچنگ کی باقاعدہ سند رکھتا ہو۔

'سٹیٹس کو' برقرار رکھنے کی خواہش صرف بورڈ تک ہی نہیں، بلکہ کپتانوں کی شکل میں بھی نظر آئی۔ 40 سالہ مصباح الحق کے نصیب میں ٹیسٹ کی قیادت آئی، جو اعتراضات کا 'پل صراط' عبور کرنے کے بعد اب کیریئر کے آخری لمحات میں کچھ عزت سمیٹ پائے ہیں۔ ٹی ٹوئنٹی کی قیادت شاہد خان آفریدی جیسے خوش قسمت ترین کھلاڑی کے پاس ہے جو ایک نصف سنچری یا چند ایک چھکے لگا کر اپنا سال بھر کا فریضہ ادا کرلیتے ہیں۔ پھر ایک روزہ میں اظہر علی، ایک ایسے کھلاڑی جن کی کپتان بننے سے پہلے سالوں تک ایک روزہ دستے میں جگہ نہیں تھی، انہیں قیادت سونپ دی گئی۔

کرکٹ کا یہ نوحہ اس وقت سنانے کا مقصد یہی ہے کہ ہم سمجھ سکین کہ زوال نظر تو میدان میں آتا ہے، لیکن درحقیقت اس کا محرک کچھ اور ہوتا ہے۔ جس طرح خودکشی کرنے والے جس درپیش مسئلے کی وجہ سے اپنی جان کا خاتمہ کرتا ہے، اصل سبب وہ نہیں ہوتا بلکہ طویل عرصے سے درپیش مسائل کا انبار ہوتا ہے، جن کی تان بالآخر ایک جگہ جا کر ٹوٹ جاتی ہے اور اس کے ساتھ میں زندگی کی ڈور بھی۔

درحقیقت کرکٹ کی بدحالی ہمارے معاشرے کی مجموعی بدحالی کا آئینہ ہے۔ جب تک معاشرے میں ذاتی مفادات، پسند و ناپسند اور سفارش کا چلن عام رہے گا، کرکٹ اس سے محفوظ نہیں رہ سکتی کیونکہ تنزلی جس ملک کو اپنے حصار میں لینا شروع کرتی ہے تو وہ کبھی ایک شعبے تک محدود نہیں رہتی بلکہ ہر شعبہ زندگی اس سے متاثر ہوتا ہے۔ اس لیے جب تک مجموعی حالات بہتری کی جانب گامزن نہیں ہوتے، کرکٹ کی بہتری کی امید بھی ہرگز نہیں رکھنی چاہیے۔