پاکستان کرکٹ "ابھی نہیں، تو کبھی نہیں؟"

3 1,037

کیا ایشیا کپ میں 'بڑے بے آبرو ہو کر' نکالے گئے پاکستان کو فوری طور پر کسی انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے؟ اگر جذبات سے سوچیں تو یہی دل چاہ رہا ہے کہ 'سیکورٹی' کا بہانہ بنا کر ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں شرکت سے انکار کردیا جائے کیونکہ جب متحدہ عرب امارات کے خلاف کھیلتے ہوئے صرف 17 رنز پر تین بیٹسمین آؤٹ ہو جائیں تو پھر ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے "گروپ آف ڈیتھ" میں بھارت، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور ممکنہ طور پر بنگلہ دیش کے خلاف کیا حال ہوگا؟ اس ہزیمت کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال، سوال اب بھی یہی ہے کہ آخر اب کیا کیا جائے؟ جو فیصلہ کرنا ہے وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ نے کرنا ہے جو اب تک اپنے اہم ترین فیصلوں میں عجیب کردار ادا کرتی آئی ہے۔

سب سے پہلی بات تو یہ کہ جب ٹیم کا انتخاب ذرائع ابلاغ اور عوام کے دباؤ پر ہوگا تو اس کا نتیجہ یہی نکلے گا۔ یہاں تک کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے دستے کا اعلان کرنے کے بعد بھی اس میں ایسی تبدیلیاں کی گئی، جو محض عوامی ردعمل اور چند ایک مقابلوں کی کارکردگی کی بنیاد پر تھیں۔ جیسا کہ شرجیل خان، محمد سمیع اور خالد لطیف کی شمولیت کا فیصلہ۔ ابتدائی دونوں کھلاڑیوں کی ایشیا کپ میں ناکامی کے ساتھ یہ "بھوت" تو اب سلیکشن کمیٹی کے سر سے اتر جانا چاہیے۔ اب بھی اگر ذرائع ابلاغ اور "ماہر" عوام کے کہنے پر چلیں گے تو نہ صرف کپتان بلکہ ہیڈ کوچ بھی باہر بیٹھے ہوں گے۔ بہرحال، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے صرف ایک ڈیڑھ ہفتہ قبل کوئی بھی 'انقلابی' تبدیلی بجائے فائدے الٹا کام کو خراب ہی کرے گی۔ اس لیے ہبتر یہی ہے کہ اسی ٹیم کو اعتماد دیا جائے اور شکست کے اسباب کو تلاش کیا جائے۔

پاکستان کی ایشیا کپ میں بدترین کارکردگی کا پہلا اور سب سے اہم سبب تھکاوٹ ہے۔ نیوزی لینڈ کے دورے سے واپسی کے بعد ابھی نے پسینے ہی خشک نہیں ہوئے تھے کہ پاکستان سپر لیگ کا آغاز ہوگیا۔ پی ایس ایل نے تو تمام تر توانائیوں کو نچوڑ کر رکھ دیا۔ بیشتر ٹیموں کو چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر دو مقابلے کھیلنے پڑے۔ یوں بھی ہوا کہ رات 12 بجے میچ ختم ہونے کے بعد اگلے دن دوپہر تین بجے پھر میدان میں پہنچنا پڑا۔ سپر لیگ تو بہت عمدہ ہوگئی، لیکن تھکن سے چور پاکستانی کھلاڑی ابھی سانس ہی بحال نہیں کر پائے تھے کہ انہیں ایشیا کپ میں روایتی حریف بھارت کے خلاف میدان میں اترنا پڑا۔ مختلف حالات میں اور بدلی ہوئی وکٹ پر پر تھکے ماندے کھلاڑیوں کے حوصلے بدترین شکست کے ساتھ ایسے ٹوٹے کہ اب تک انہیں سمیٹنا ممکن نہیں دکھائی دیتا۔ اس لیے دل پر پتھر رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان سپر لیگ کا غلط وقت پر انعقاد پاکستان کو سال کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں سخت نقصان پہنچائے گا۔ اس کی ایک ہلکی سی جھلک ہم ایشیا کپ میں دیکھ چکے ہیں کہ جہاں بھارت کے خلاف شکست نے ٹیم کے حوصلوں کو بری طرح پست کیا ہے۔ صرف 83 رنز پر ڈھیر ہو جانے کے بعد ان کی بحالی کے لیے جیسے "گرو" کی ضرورت ہے، وہ بھی سرے سے میسر نہیں۔ اس لیے ہر شکست اب ایک نیا تازیانہ بن ثابت ہو رہی ہے۔

Pakistan-players

ایک اور اہم بات جو ایشیا کپ میں صاف نظر آئی، وہ تھی منصوبہ بندی کا فقدان۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے انتظامیہ اور کپتان سرے سے پچ کو دیکھتے ہی نہیں۔ پاکستان کا ایشیا کپ کےابتدائی تین دنوں تک کوئی میچ نہیں تھا اور انہی ایام میں انتظامیہ کو اندازہ ہو جانا چاہیے تھا کہ وکٹیں کس طرح کا رویہ اختیار کر رہی ہیں۔ سوائے پہلے میچ کے کوئی ٹیم 150 رنز کا ہندسہ بھی عبور نہیں کر پا رہی تھی۔ یہاں بالخصوص بیٹنگ میں پلاننگ کی ضرورت تھی کہ اپنے کمزور دستے کو کس طرح منصوبے کے ذریعے بہتر بنایا جائے لیکن اگر کوئی ایسا خاکہ بنایا بھی گیا تھا تو بھارت کے خلاف پہلے مقابلے میں صرف 42 رنز پر چھ کھلاڑیوں کو آؤٹ ہونے کے بعد ناکام ثابت ہوا۔ چار تیز گیندبازوں پر مشتمل 'اٹیک' سے بھارت کو روکنے کی کوشش تو کی گئی لیکن صرف 84 رنز کا دفاع کرنا ناممکن تھا، ناممکن ہی رہا۔

اس بدترین شکست کے بعد تو پاکستان کرکٹ کا 'دماغ' ماؤف ہی ہوگیا۔ اس کے بعد تو جہاں وکٹ تیز تھی، وہاں اسپنر محمد نواز کو کھلا دیا، جہاں اسپنرز کو مدد مل سکتی تھی، وہاں نواز کو بٹھا کر انور علی کو طلب کرلیا گیا۔ بلاشبہ ایک، دو کھلاڑیوں کی تبدیلی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ کرکٹ گیارہ کھلاڑی کھیلتے ہیں اور یہاں اجتماعی کوشش اور اس سے نتیجہ پانے کی اہمیت زیادہ ہے لیکن بودی منصوبہ بندی کے ساتھ کمزور کڑیوں کی شمولیت نے معاملات کو مزید خراب کردیا۔ کھلاڑیوں کے انتخاب میں یہی غلطیاں پاکستان کی شکست کا سبب بن رہی ہیں۔ خرم منظور کو ڈومیسٹک کارکردگی کا صلہ دیا جا رہا ہے۔ بہت اچھا کیا جا رہا ہے لیکن یہ دیکھیں کہ آپ یہ موقع دے کس جگہ پر رہے ہیں؟ پہلا ہی میچ انہیں بھارت کے خلاف ایسی جگہ پر کھلا رہے ہیں جہاں ان کے ساتھ ساتھ دیگر تمام بیٹسمین بھی ناکام ہوگئے۔ پھر دیگر لو-اسکورنگ میچز میں کہ جہاں شکست کے بعد "برق بیچارے مسلمانوں پر" ہی گرے گی۔ یعنی یہ تمام نئے کھلاڑی ہی باہر بیٹھیں گے۔ دراصل کھلاڑیوں کے انتخاب میں قومی سلیکشن کمیٹی وہ عظیم غلطیاں کر رہی ہے کہ سمجھ سے بالاتر ہیں۔ ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے دستے کا اعلان کردیا جاتا ہے لیکن اچانک پاکستان سپر لیگ میں فاتح اسلام آباد یونائیٹڈ کی کارکردگی دیکھ کر انہیں فوری تبدیلیاں یاد آ جاتی ہیں۔ ہنگامی طور پر چند "اسلام آبادی" طلب کرلیے جاتے ہیں کہ جن کی کارکردگی اب عیاں ہو چکی ہے۔ ایسے جلد بازی میں کیے گئے فیصلے، جیسا کہ شرجیل خان اور محمد سمیع کی شمولیت، کیا اثر لاتے ہیں، اس کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔

آخری بات یہ کہ شکست یتیم ہوتی ہے اور فتح کے کئی وارث ہوتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ معمولی خامیاں شکست کی وجہ سے ابھر کر سامنے آ جاتی ہیں اور اگر کامیابی مل جائے تو بڑی بڑی خامیاں چھپ جاتی ہیں۔ ہمارا اب بھی یہی خیال ہے کہ پاکستان کو اب فوری طور پر ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں لانی چاہیے اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا "جوا" بھی انہی کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنا چاہیے۔ ایک حوصلہ افزا پہلو یہ ہے کہ باؤلرز بہتر کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ خاص طور پر محمد عامر بہترین فارم میں ہیں۔ اگر وہاب ریاض، محمد عرفان اور دیگر باؤلرز ان کا بھرپور ساتھ دینے میں کامیاب ہوگئے تو پاکستان اس 'لولی لنگڑی' بیٹنگ لائن کے ساتھ بھی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں کچھ معجزے کر سکتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو یہ ہماری روایت رہی ہے کہ ہم بڑی ناکامی کے بعد ایک ساتھ بڑی تبدیلیاں کرتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً تبدیلیاں لانا اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کا "جھنجھٹ" ہمارے ادارے اور ان کے کرتا دھرتا کبھی نہیں پالتے۔ اس لیے انہی کھلاڑیوں کو حوصلہ دینے کی کوئی ترکیب آزمائیں اور پھر "لڑا ے ممولے کو شہباز سے"۔