"لالا" بیدار ہوگئے، بنگال ٹائیگرز کا گھمنڈ خاک میں مل گیا
گیندبازوں کے سہارے تو پاکستان فتوحات حاصل کرتا رہتا ہے، لیکن آج بنگلہ دیش کے خلاف ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے پہلے معرکے میں کمال ہی ہوگیا۔ جب سب کی التجا بھری نظریں بلے بازوں پر تھیں، عین اس وقت انہوں نے مایوس نہیں کیا اور پاکستان نے 201 رنز بنا کر گیندبازوں کے لیے کام آسان کردیا۔ بھارت کے خلاف اہم معرکے سے قبل 55 رنز کی فتح حاصل کرکے بھرپور اعتماد حاصل کرلیا ہے۔ سب سے نمایاں خود کپتان شاہد آفریدی رہے کہ جنہوں نے رنز بھی خوب بنائے اور وکٹیں بھی لیں۔
پاکستان نے ٹاس جیتا اور بغیر کسی توقف کے پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا اور پاکستان نے برق رفتار آغاز لیا۔ شرجیل خان نے ابتدائی وار کیے اور دو چھکوں اور ایک چوکے کی مدد سے 10 گیندوں پر 18 رنز بنائے لیکن اس سے آگے نہ جا سکے۔ ان کے بعد دوسری وکٹ کے لیے احمد شہزاد اور محمد حفیظ نے بہت ہی عمدہ شراکت داری قائم کی۔ دس اوورز میں 95 رنز بنا کر انہوں نے آنے والے بلے بازوں کے لیے کام بہت ہی آسان کردیا۔ احمد شہزاد 38 گیندوں پر 8 چوکوں کی مدد سے 52 رنز بنانے کے بعد واپس لوٹے۔ اِس موقع پر توقع تو یہ تھی کہ شعیب ملک یا عمر اکمل سے کوئی بلے بازی کے لیے آئے گا، لیکن شائقین کرکٹ اُس وقت حیران رہ گئے جب کپتان شاہد آفریدی خود میدان میں اترے۔ یقیناً یہ اُن کا دلیرانہ فیصلہ تھا۔ انہوں نے صرف جرات ہی نہیں دکھائی بلکہ 19 گیندوں پر 49 رنز کی فیصلہ کن اننگز بھی کھیلی۔
پاکستان کی تیسری وکٹ محمد حفیظ کی صورت اُس وقت گری جب 17 ویں اوور میں 163 رنز بن چکے تھے۔ حفیظ نے سب سے زیادہ 64 رنز بنائے، جس کے لیے صرف 42 گیندوں پر 2 چھکوں اور 7 چوکوں کی مدد لی۔ وہ مزید آگے بڑھتے لیکن سومیا سرکار نے عین باونڈری لائن پر ان کا ناقابل یقین کیچ پکڑا۔ اُن کے جانے کے بعد عمر اکمل آئے لیکن وہ بغیر کوئی رن بنائے تسکین احمد کا شکار ہوئے۔ گو کہ یکے بعد دیگرے دو کھلاڑی پویلین لوٹ گئے، لیکن دوسرے اینڈ پر موجود شاہد آفریدی مسلسل جارحانہ کھیل پیش کررہے تھے اور جب آخری اوور کی چوتھی گیند پر اپنی نصف سنچری مکمل کرنے کے لیے انہیں صرف ایک رن درکار تھا تو ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر چھکا مارنے کی کوشش میں کیچ آؤٹ ہوگئے۔ اگر آفریدی نصف سنچری مکمل کرلیتے تو جون 2012 کے بعد یہ اُن کی پہلی ففٹی ہوتی۔ آفریدی نے صرف 19 گیندوں پر 4 چھکوں اور اتنے ہی چوکوں کے ساتھ 49 رنز بنائے۔
یہ اپریل 2008ء کے بعد پہلی بار ہوا ہے کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں کسی بھی ٹیم کے خلاف پاکستان نے 200 رنز اسکور کیے ہوں، اُس وقت بھی یہ کارنامہ بنگلہ دیش کے خلاف ہی سرانجام دیا تھا اور آج بھی تختہ مشق بنگلہ دیش ہی تھا۔
بڑے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے بنگلہ دیشی بلے باز شروع سے ہی گھبراہٹ کا شکار دکھائی دیے۔ محمد عامر کے پہلے ہی اوور میں سومیا سرکار بغیر کوئی رن بنائے کلین بولڈ ہوگئے۔ سرکار کے جانے کے بعد دو اِن فارم بلے باز تمیم اقبال اور شبیر رحمٰن وکٹ پر موجود تھے۔ تین کوالیفائنگ راؤنڈ میچوں میں 47، 80 اور 103 رنز بنانے والے تمیم اقبال کا اعتماد آسمانوں کو چھو رہا تھا جبکہ گزشتہ 12 ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں 43 کی اوسط سے رنز بنانے والے شبیر بھی کسی خطرے سے کم نہیں تھے۔ لیکن پاکستانی گیند بازوں کے سامنے ان کی کوئی تدبیر نہ چلی۔ بنگلہ دیش کی دوسری وکٹ 44 کے مجموعی اسکور پر گری۔ 24 رنز بنانے والے شبیر شاہد آفریدی کے ہاتھوں بولڈ ہوئے۔ پھر صرف 14 رنز کے اضافے کے بعد "لالا" نے تمیم اقبال کو بھی چلتا کردیا۔ وہ بھی 24 رنز بنا سکے۔ یوں 8 اوورز کے اختتام تک بنگلہ دیش کے تین ابتدائی کھلاڑی 58 رنز پر پویلین لوٹ چکے تھے اور جیت کی بڑی امید تو ختم ہو چکی تھی۔
شکیب الحسن کا ساتھ نبھانے کے لیے محمود اللہ کو بھیجا گیا لیکن وہ صرف چار رنز بنانے کے بعد عماد وسیم کا شکار ہوگئے۔ شرجیل خان نے ان کا ایک عمدہ کیچ لیا۔ پانچویں وکٹ کے لیے شکیب اور مشفق الرحیم نے 39 رنز تو جوڑے لیکن رنز کی رفتار بہت سست تھی۔ 18 رنز بنانے والے مشفق الرحیم محمد عامر کا شکار بنے تو اُس وقت 17 واں اوور چل رہا تھا۔ اگلے ہی اوور میں محمد عرفان نے محمد متھن کی دو رنز کی اننگز تمام کی۔ 20 اوورز مکمل ہوئے تو بنگلہ دیشی ٹیم 6 وکٹوں کے نقصان پر 146 رنز ہی پر تھی اور اُسے 55 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
یوں بنگلہ دیش کے خلاف پاکستان کی مسلسل شکستوں کا سلسلہ تھم گیا۔ گزشتہ سال دورۂ بنگلہ دیش کے دونوں ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں شکست کے بعد پاکستان کو ابھی ایشیا کپ میں بھی بنگلہ دیش کے خلاف شکست ہوئی تھی لیکن آج زیادہ بڑے مقابلے میں پاکستان نے واضح کامیابی حاصل کرکے اپنی برتری ثابت کردی ہے۔
شاہد آفریدی اور محمد عامر نے دو، دو جبکہ عماد وسیم اور محمد عرفان کے حصے میں ایک ایک وکٹ آئی۔
میچ میں شاندار آل راؤنڈ کھیل پیش کرنے پر شاہد آفریدی کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا، اُن کی یہ کارکردگی دیکھ کر یقیناً مخالفین کو پریشانی لاحق ہوگئی ہوگی۔