عمران خان بمقابلہ مصباح الحق

0 1,055

کرکٹ کے تناظر میں عمران خان کا ذکر ہو تو ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ تصور میں 1992ء کے ورلڈکپ کی فاتحانہ تصویر نہ ابھرے۔ فاتح ٹیم، عمران خان کی قیادت میں ٹرافی اٹھائے ہوئے اور چہروں سے خوشی پھوٹتے ہوئے۔ دوسری طرف حالیہ دنوں میں جب بھی مصباح الحق کا ذکر ہوا ہے تو انگلستان سے ٹیسٹ سیریز کے بعد ٹیسٹ رینکنگز میں پاکستان کے نمبر ایک ٹیم بننے کا تذکرہ بھی ہوا ہے۔ 21 ستمبر کو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی جانب سے مصباح الحق کو اعزازی ٹرافی ’میس‘ پیش کی گئی۔ آئی سی سی کا موجودہ ٹیسٹ رینکنگز نظام لاگو ہونے کے بعد یہ پہلی بار ہے جب پاکستانی ٹیم سرِ فہرست مقام پر پہنچی ہے۔ لیکن رینکنگز کے پرانے نظام کے تحت بھی پاکستانی ٹیم ایک بار سرِ فہرست رہ چکی ہے۔ 1988ء میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے عمران خان کی قیادت میں دو مہینوں کے لیے نمبر ایک پوزیشن حاصل کی تھی۔

تو کیوں نہ ماضی اور حال کی ان دونوں نمبر ایک ٹیموں کا تقابل کیا جائے۔ دونوں ٹیموں کے کپتانوں کی کارکردگی جانچنے کے لیے چھ سال کا مساوی عرصہ ہے۔ عمران خان نے 1986ء میں قومی ٹیم کی قیادت سنبھالی تھی اور 1992ء میں آخری میچ کی قیادت کی تھی۔ مصباح نے پے در پے بحرانوں کا شکار قومی ٹیم کی کپتانی کا عہدہ 2010ء میں سنبھالا اور 2016ء میں وہ ٹیم سرِ فہرست آچکی تھی۔

مصباح کو عمران خان کے مقابلے میں دگنی فتوحات نصیب ہوئیں۔ مصباح نے 47 مقابلوں میں 22 اپنے نام کیے جبکہ عمران خان نے 43 میں سے 12 مقابلے جیتے۔ لیکن شکستوں کے اعداد و شمار ملاحظہ کیے جائیں تو وہ بھی ٹیم مصباح کے حصے میں دگنے سے زیادہ آئے۔ جہاں عمران خان کی ٹیم کو پانچ مقابلوں میں شکست ہوئی، وہاں مصباح کی ٹیم 14 مقابلے ہاری۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 90ء کی دہائی کے مقابلے میں 2010ء کی دہائی میں ٹیسٹ مقابلوں کے بلا نتیجہ ختم ہونے کی تعداد خاصی کم رہی۔

دونوں ہی ٹیموں کو شکست دینا مخالف ٹیموں کے لیے مشکل ہدف رہا۔ ٹیم عمران کو دس سیریز میں سے صرف ایک آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں شکست ہوئی، جبکہ ٹیم مصباح کو 19 سیریز میں سے تین میں شکست ہوئی۔ اور جب ہوم گراؤنڈ پر، یا موجودہ حالات میں امارات کے میدانوں پر کرکٹ کی بات ہو تو وہاں دونوں ہی ٹیموں کو شکست دینا قریب قریب ناممکن رہا ہے۔ ان میدانوں پر عمران خان کی ٹیم کو صرف دو، اور مصباح کی ٹیم کو صرف تین میچوں میں شکست ہوئی۔

عمران خان اور مصباح الحق دونوں بالکل مختلف شخصیات ہیں۔ لیکن ٹیم کو متحد رکھنے اور آگے بڑھانے میں دونوں نے مرکزی کردار ادا کیا۔ دونوں مضبوط کپتان بن کر ابھرے اور میدان میں اپنی پرفارمنس سے ساتھی کھلاڑیوں کو ترغیب دی۔ نمبر ایک ٹیم بننے سے قبل میچ میں عمران خان نے ویسٹ انڈیز کے خلاف گیارہ وکٹیں حاصل کی تھیں، اور مصباح نے لارڈز کے میدان پر سنچری بنائی تھی۔ ان چھ سالوں میں عمران خان کی اوسط 50.44 رہی اور مصباح کی اوسط 54.93 رہی ہے۔

دونوں ہی ٹیموں کا جائزہ لیا جائے تو وہ سبھی عظیم یا بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل نہیں تھیں۔ 1987-1988ء میں ویسٹ انڈیز کا دورہ کرنے والی ٹیم عمران میں عامر ملک، اعجاز فقیہ، اور سلیم جعفر شامل تھے، تو 2016ء میں انگلستان کا دورہ کرنے والی ٹیم مصباح میں شان مسعود، افتخار احمد اور راحت علی جیسے نئے کھلاڑی بھی موجود تھے۔ لیکن دونوں میں ایک اور دلچسپ اتفاق بھی تھا۔ دونوں ہی ٹیموں کے پاس میچ وننگ لیگ اسپنرز موجود تھے۔ عمران کے پاس عبد القادر اور مصباح کے پاس یاسر شاہ۔ بیٹنگ لائن کا ذکر ہو تو دونوں ہی ٹیموں کے پاس کم از کم ایک ایسا منجھا ہوا بلے باز موجود تھا جس پر انحصار کیا جاسکتا تھا۔ عمران کے پاس جاوید میانداد اور مصباح کے پاس یونس خان۔

عمران خان نے پاکستان کرکٹ ٹیم میں جو جان ڈالی تھی، اس کے باعث پاکستان نے بین الاقوامی کرکٹ میں اپنا لوہا منوایا اور فتوحات کے سفر پر گامزن ہوئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مصباح الحق کی ٹیم آنے والے بڑے چیلنجوں کا مقابلہ کس طرح کر پاتی ہے اور سرفہرست ٹیم کے اعزاز کا دفاع کتنا عرصہ کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔

Misbah-ul-Haq