بنگلہ دیشی لیگ ہی احمد شہزاد کے لیے ’’اعزاز‘‘ہے؟

0 1,091

پاکستان کرکٹ میں اوپننگ پوزیشن پر ’’میوزیکل چیئرز‘‘کا کھیل کافی عرصے سے کھیلا جارہا ہے اور شاید آئندہ بھی کھیلاجاتا رہے کیونکہ ایک طویل عرصے سے پاکستان کو اس پوزیشن پر قابل اعتماد بیٹسمین نہیں مل سکا بلکہ کوئی بھی اوپنر کچھ عرصہ اچھی کارکردگی دکھانے کے بعد پس منظر میں چلا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ٹیم سے باہر ہونے والے اوپنرز کو بھی یہ ’’تسلی‘‘ ہوتی ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارمنس سے قطع نظر کسی نہ کسی وقت اس کی قومی ٹیم میں واپسی ممکن ہوجائے گی۔ اگر ون ڈے فارمیٹ کی بات کریں تو اس وقت کپتان اظہر علی کیساتھ شرجیل خان، سمیع اسلم اور خالد لطیف جیسے بیٹسمین کھیل رہے ہیں جبکہ گزشتہ کچھ برسوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے احمد شہزاد اِس وقت قومی ٹیم سے باہر اور واپسی کے منتظر ہیں۔

خبر تھی کہ آسٹریلیا کیخلاف ون ڈے سیریز کیلئے احمد شہزاد کے نام کو ’’قابل غور‘‘سمجھا جارہا ہے کیونکہ آسٹریلیا کی مشکل کنڈیشنز میں احمد شہزاد کے ’’تجربے‘‘ سے فائدہ اُٹھانے کیساتھ ساتھ یہ اچھا ’’موقع‘‘ بھی ہوگا کہ ڈسپلن کے حوالے سے مسائل کے شکار اوپنر کو لمبے عرصے کیلئے قومی ٹیم سے دور کردیا جائے۔ گزشتہ دنوں قائد اعظم ٹرافی کے دوران انضمام الحق اور ان کی سلیکشن ٹیم کراچی میں موجود تھی اور دیگر امور کیساتھ ساتھ احمد شہزاد کی واپسی بھی زیر بحث آئی مگر آخری فیصلہ انضی کا تھا جنہوں نے ’’اصولی‘‘ موقف اپناتے ہوئے بیان دیا کہ بنگلہ دیشی لیگ میں دکھائی گئی پرفارمنس احمد شہزاد کو پاکستانی ٹیم میں واپس نہیں لاسکتی بلکہ دوبارہ انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کیلئے احمد شہزاد کو ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارمنس دکھانا ہوگی اور احمد نے اس بیان کو سنجیدگی سے لینے کی بجائے فوری طور پر یہ بیان داغ دیا کہ بی پی ایل میں حصہ لینا بھی ایک طرح سے بیرون ملک پاکستان کی نمائندگی اور کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔

اس سیزن میں حبیب بینک کی ٹیم نے احمد شہزاد کو کپتان بنایا جنہوں نے صرف دو میچز میں اپنی ٹیم کی نمائندگی کی اور تین اننگز میں ایک نصف سنچری سمیت صرف 75رنز بنائے۔ اسی دوران ویسٹ انڈیز کیخلاف سائیڈ میچ میں پاکستان اے کی نمائندگی کرتے ہوئے احمد شہزاد نے 52اور4رنز کی باریاں کھیلیں جس کے بعد احمد شہزاد نے ملک کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ چھوڑ کر بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں جائے پناہ تلاش کرلی جہاں میچز کھیلنے سے زیادہ احمد شہزاد سے ڈگ آؤٹ کی نشستیں گرمانے کا کام لیا جاتا رہا ہے۔

بی پی ایل میں تادم تحریر احمد شہزاد کوکومیلا وکٹورین نے پہلے تین میچز باہر بٹھانے کے بعد اگلے چار میچز میں موقع دیا جس نے ان میچز میں15، 52، 11اور40*رنز کی باریاں کھیلی۔ پہلے تین میچز میں احمد شہزاد کو ون ڈاؤن پوزیشن پر کھلایا گیا جبکہ آخری میچ میں احمد شہزاد نے نمبرچار پر 25بالز پر 40*رنز بنائے۔ اگلے پانچ میچز میں ممکن ہے کہ احمد شہزاد چند ایک اور اچھی اننگز کھیل دے مگر یہ ایسی کارکردگی نہیں ہے جسے تہلکہ خیز کہا جاسکے اور اس کارکردگی کی بنیاد پر احمد شہزاد کو قومی ٹیم میں واپسی کی امید ہوجائے۔

انضمام الحق کا کہنا بالکل درست ہے کہ اگر احمد شہزاد واقعی قومی ٹیم میں واپسی کرنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں ڈومیسٹک کرکٹ میں حصہ لیتے ہوئے پرفارم کرنا ہوگا۔ احمد شہزاد کافی عرصے سے بی پی ایل سمیت دیگر ٹی20لیگز کھیل رہے ہیں مگر قومی ٹیم سے باہر ہونے کے بعد احمد کیلئے ڈومیسٹک سیزن کی اہمیت بہت زیادہ ہوگئی تھی۔ نیشنل ٹی20میں کپتانی کرنے والے احمد شہزاد اگر اس مرتبہ بی پی ایل کی قربانی دے کر قائد اعظم ٹرافی میں حصہ لیتے ہوئے وہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں اچھی کارکردگی دکھا کر سلیکشن کمیٹی پر دباؤ بڑھا سکتے تھے کہ وہ انہیں دوبارہ پاکستانی ٹیم کا حصہ بنائے مگر احمد شہزاد نے یہ موقع گنوا دیا۔ سہیل تنویر، عماد وسیم جیسے ٹی20 اسپیشلسٹ کھلاڑیوں کے علاوہ احمد شہزاد سمیت جو کھلاڑی بی پی ایل میں حصہ لے رہے ہیں انہیں چاہیے تھا کہ وہ پیسوں کی قربانی دے کر خود کو قومی ٹیم کے قریب کرنے کی کوشش کرتے جس کیلئے قائد اعظم ٹرافی میں حصہ لینا بہت ضروری تھا۔ یہی صورتحال عمر اکمل کیساتھ بھی تھی جس نے لاہور وائٹس کیلئے چند میچز میں حصہ لینے کے بعد بی پی ایل کو ترجیح دی ورنہ ریجن کی نمائندگی کرتے ہوئے عمر اکمل سلیکٹرز پر دباؤ ڈال سکتے تھے۔

احمد شہزاد ایسے بیٹسمین ہیں جو صلاحیت کی دولت سے مالامال ہیں اورڈسپلن کے معاملات کے باوجود ان کا انٹرنیشنل کیرئیر ختم نہیں ہوا لیکن احمد شہزاد کو یہ بات بھی یاد رکھنا ہوگی کہ پاکستانی ٹیم میں ان کی واپسی ماضی کی کارکردگی یا کسی اور ’’طریقے‘‘سے نہیں ہوگی بلکہ اس کیلئے انہیں ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کرنا ہوگا۔ بی پی ایل اور ایسی لیگز کسی کھلاڑی کو ٹی20ٹیم میں تو شامل کرواسکتی ہیں مگر ٹیسٹ یا ون ڈے ٹیم میں جگہ حاصل کرنے کیلئے احمد شہزاد کو فرسٹ کلاس کرکٹ میں رنز کرنا ہونگے کیونکہ یہی وہ ایک راستہ ہے جو انہیں دوبارہ پاکستانی ٹیم کا حصہ بنا سکتا ہے۔ اگر احمد شہزاد بی پی ایل میں کھیلنے کو اپنے لیے ’’اعزاز‘‘ سمجھتے ہیں تو پھر انہیں یہی اعزاز مبارک ہو!