کپتان کی عدم موجودگی’’خیر‘‘ کا سبب بھی ہوسکتی ہے!

0 1,044

بعض باتیں یا نقصان ایسے ہوتے ہیں جو وقتی طور پر بہتر یا اچھے نہیں لگتے لیکن مستقبل کے حوالے سے ایسے نقصانات میں بھی ’’خیر‘‘ ہوتی ہے۔ چھ سال قبل جب تین کھلاڑیوں نے اپنے منہ پر’’کالک‘‘ ملی تو یہ پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں سب سے بڑا ’’نقصان‘‘لگ رہا تھا جس کی بدنامی الگ تھی۔ اگر انگلینڈ میں یہ تین کھلاڑی رسوائی کا طوق اپنے گلے میں نہ سجاتے تو ممکن تھا کہ کچھ عرصے کے بعد کپتان کی تبدیلی عمل میں آتی، ٹیم کمبی نیشن میں بھی ردوبدل ہوتی رہتی۔ مڈل آرڈر میں نئے نئے بیٹسمینوں کی آمد کا سلسلہ بھی جاری رہتا کیونکہ محمد یوسف، یونس خان اور مصباح الحق جیسے بیٹسمین ٹیم کا حصہ نہیں تھے۔ ایسی صورتحال میں کیا ہونا تھا یہ کوئی نہیں جانتا تھا مگر 2010ء کی گرمیوں میں تین کھلاڑیوں پر عائد ہونے والی پابندی نے پاکستانی ٹیم کیلئے حالات ضرور خراب کردیے تھے۔

اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے بعد اکتوبر میں جنوبی افریقہ کیخلاف ٹیسٹ سیریز کیلئے مصباح الحق کو قومی ٹیم کا کپتان بنایا گیا، یونس خان کی واپسی ہوئی، محمد حفیظ اور توفیق عمر کا اوپننگ پیئر بنا، سعید اجمل ٹیم کا سب سے اہم بالر بن کر سامنے آیا اور پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کامیابی کیساتھ ساتھ استحکام کی پٹری پر چڑھ گئی۔ یہ سفر چھ برسوں سے مصباح الحق کی قیادت میں جاری ہے لیکن یہ سب اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے بعد ممکن ہوا اگر انگلینڈ کا دورہ ’’خیریت‘‘سے گزر جاتا تو ممکن تھا کہ مصباح الحق کی ٹیم میں واپسی مشکل ہوجاتی جبکہ کپتانی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اسی طرح یونس خان کوبھی واپسی کیلئے کچھ عرصہ اور انتظار کرنا پڑتا۔ اسپاٹ فکسنگ واقعے کا کسی بھی طور پر دفاع نہیں کیا جاسکتا لیکن اگست 2010ء میں اس واقعے سے ہونے والے ’’نقصان‘‘ نے آنے والے مہینوں میں پاکستان کرکٹ کو ’’فائدہ‘‘پہنچایا کیونکہ اس کے بعد قومی ٹیسٹ ٹیم میں استحکام آگیا۔

اکتوبر2010ء میں مصباح الحق نے اپنے کیرئیر کی دوسری اننگز کی ابتدا کی اور پچاس ٹیسٹ میچز میں پاکستانی ٹیم کی قیادت کا اعزاز حاصل کرلیا جو ایسا اعزاز ہے جس پر کوئی دوسرا پاکستانی کپتان اپنا نام نہیں لکھوانہیں سکامگر 42 سالہ مصباح الحق نے ایک نہ ایک دن تو کرکٹ کے میدانوں کو چھوڑ کر جاناہے تو پھر مصباح کی جگہ کون لے گا؟کون کپتانی کرے گا ؟کون مصباح کے نمبر پر بیٹنگ کرے گا؟ان سوالوں کا جواب تو چاہیے کیونکہ اگر اس کا جواب مصباح کے جانے کے بعد ڈھونڈا تو شاید بہت دیر ہوجائے۔ اس لیے یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب ابھی تلاش کرنا ہوگا اور قدرت نے یہ موقع ہملٹن میں پاکستانی ٹیم کو دے دیا ہے۔

بہت سے لوگ اس بات پر تشویش کا شکار ہیں کہ ایک ٹیسٹ ہارنے کے بعد دوسرے اور آخری ٹیسٹ میں مصباح الحق کی عدم موجودگی گرین شرٹس کیلئے نقصان کا باعث بنے گی جو یقینا بنے گی کیونکہ نہ اظہر علی کو مصباح کی طرح کپتانی کا تجربہ ہے اور نہ مڈل آرڈر میں ایسا کوئی بیٹسمین موجود ہے جو پاکستانی کپتان کی جگہ لے سکے اس لیے اگر دماغ یہ سوال اُٹھاتا ہے کہ اس اہم میچ میں مصباح الحق کا نہ ہونا پاکستانی ٹیم کی مشکلات میں اضافہ کرے گا لیکن اس ’’نقصان‘‘ سے کوئی اچھا پہلو بھی تو نکل سکتا ہے۔ کیا اظہر علی کو اس سے اچھا موقع ملے گا کہ وہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا اظہار بھرپور انداز سے کرتے ہوئے نہ صرف ون ڈے فارمیٹ میں اپنی کپتانی کوبچا سکتا ہے بلکہ ٹیسٹ کرکٹ میں بھی مہر ثبت کرسکتا ہے کہ آنے والے عرصے میں مصباح کی ریٹائرمنٹ کے بعد کپتانی صرف اظہر علی کے حصے میں ہی آئے۔

میں یہ نہیں کہوں گا ہملٹن میں مصباح کی عدم موجودگی میں یونس خان کی صلاحیتوں کا امتحان ہوگا کیونکہ کیرئیر کے اس حصے میں سینئر بیٹسمین کو کچھ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی 200ویں اننگز کو یادگار بنانے کیلئے یونس خان کوئی چمتکار ضرور دکھائیں گے۔ دوسری طرف مصباح کی جگہ لینے والے بیٹسمین کے پاس بھی یہ سنہری موقع ہے کہ وہ یہ بتادے کہ پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کا مڈل آرڈر محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ ذرائع کے مطابق وکٹ کیپر بیٹسمین محمد رضوان کو ٹیسٹ کیپ ملنے کا امکان ہے اور اس سے بہتر موقع رضوان کو نہیں مل سکتا کہ وہ ہنر دکھائے جسے گزشتہ دو برسوں سے ٹیسٹ ٹیم کا حصہ ہونے کے باوجود ابھی تک فائنل الیون میں شامل ہونے کا موقع نہیں مل سکا۔

چند گھنٹے بعد شروع ہونے والے اس ٹیسٹ میچ میں اگر اظہر علی نے نتائج کی پرواہ کی تو شاید وہ اپنی کپتانی کے جوہر نہ دکھا سکیں بلکہ وہ مصباح کی ’’ایکسٹینشن‘‘ ہی ثابت ہونگے۔ اس لیے اظہر علی کو چاہیے کہ ان پانچ دنوں(اگر ٹیسٹ میچ پانچ دن تک گیا تو)میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا بھرپور انداز سے مظاہرہ کریں تاکہ جس طرح مصباح الحق کی موجودگی نے پاکستان کرکٹ کو فائدہ پہنچایا ہے بالکل اسی طرح مصباح کی عدم موجودگی بھی گرین شرٹس کیلئے ’’مفید‘‘ ثابت ہونی چاہیے جس کیلئے اظہر علی کو ’’دلیر‘‘ہونا پڑے گا!

Azhar-Ali