ہزارویں ٹیسٹ کا میزبان نیاز اسٹیڈيم، یادگار میچ کے ہیرو میانداد سے خصوصی گفتگو

1 1,138

ٹیسٹ کرکٹ کے دو ہزارویں ٹیسٹ کا غلغلہ ہر سو ہے لیکن کیا آپ کو یاد ہے کہ ہزارواں ٹیسٹ کب اور کہاں کھیلا گیا؟ جی ہاں! 1984ء میں پاکستان کے بھولے بسرے شہر حیدرآباد کے نیاز اسٹیڈیم میں۔ حیدرآباد، جو کسی زمانے میں سندھ کا دارالخلافہ تھا، اور پاکستان کرکٹ میں اہم مقام کا حامل بھی تھا، عرصۂ دراز سے کرکٹ کے قومی منظرنامے سے مکمل طور پر اوجھل دکھائی دے رہا ہے۔

بدقسمتی سے یہ تاریخی مقابلہ حیدرآباد میں کھیلا گیا آخری ٹیسٹ بھی ثابت ہوا اور اس کے بعد سے آج تک نیاز اسٹیڈیم کو کسی ٹیسٹ میچ کی میزبانی نہیں مل سکی۔

10 سال تک مسائل کا شکار رہنے کے بعد نیاز اسٹیڈیم کا کنٹرول 2007ء میں پاکستان کرکٹ بورڈ کو ملا اور اگلے سال پاک زمبابوے ایک روزہ میچ یہاں کھیلا گیا

نیاز اسٹیڈیم کو ہزارویں ٹیسٹ کی میزبانی کے علاوہ عالمی کپ 1987ء کے افتتاحی میچ کی میزبانی کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس کے علاوہ 1982ء میں پاکستان کے گيند باز جلال الدین نے آسٹریلیا کے خلاف ایک روزہ کرکٹ کی تاریخ کی پہلی ہیٹ ٹرک کا اعزاز بھی اسی میدان پر حاصل کیا۔ اور ان سب سےبڑھ کر یہ کہ نیاز اسٹیڈیم ملک کا واحد مقام ہے جہاں پاکستان کبھی کوئی ٹیسٹ یا ایک روزہ میچ نہیں ہارا۔ پاکستان نے کل 5 ٹیسٹ اور 7 ایک روزہ میچز یہاں کھیلے ہیں اور کسی میں شکست کا منہ نہیں دیکھا۔

1984ء میں کھیلے گئے مذکورہ ٹیسٹ میچ میں پاکستان نے عظیم بلے باز جاوید میانداد کی دونوں اننگز میں سنچریوں کی بدولت نیوزی لینڈ کو با آسانی 7 وکٹوں سے زیر کر لیا تھا۔ یہ تاریخی میدان اب دہائی دے رہا ہے۔ یہاں آخری ایک روزہ بین الاقوامی میچ 1997-98ء سیزن میں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان کھیلا گیا اور اس کے بعد بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے نیاز اسٹیڈیم پر بند ہو گئے۔ اس کی وجہ سے ناقص معیار کی سہولیات اور تنصیبات کی عدم دستیابی تھا۔

میدان شادیوں کی تقریبات کے لیے استعمال ہونے لگا اور اس کی گھاس اور پچ کسی فرسٹ کلاس کی میزبانی کے قابل بھی نہ رہی، بالآخر 2007ء میں نسیم اشرف غنی کی زیر قیادت پاکستان کرکٹ بورڈ نے نیاز اسٹیڈیم کا کنٹرول سنبھالا اور اسے اس قابل بنایا کہ اگلے سال یہاں زمبابوے اور پاکستان کے درمیان ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیلا گیا جو یہاں کھیلا گیا آخری بین الاقوامی مقابلہ ثابت ہوا۔ گو کہ اس کے بعد پاکستان بھر میں کرکٹ کو زوال آ گیا اور 2009ء کے اوائل سے پاکستان بھر میں کہیں بھی بین الاقوامی کرکٹ نہیں کھیلی گئی لیکن اس تاریخی میدان کے زوال کا نوحہ دیگر علاقوں سے کہیں زیادہ درد انگیز ہے۔

جاوید میانداد نے دونوں اننگز میں سنچریاں داغ کر ایک ہزارویں ٹیسٹ کو مزید یادگار بنا دیا

کرک نامہ نے اس یادگار مقابلے کے ہیرو جاوید میانداد سے خصوصی گفتگو کی جس میں لیجنڈری بلے باز نے کہا کہ وہ ایک یادگار میچ تھا اور اب جبکہ دنیائے کرکٹ دو ہزارویں ٹیسٹ کا جشن منا رہی ہے تو انہیں 1984ء میں کھیلے گئے ہزارویں ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچریاں ضرور یاد دلائی جاتی ہیں۔ تاہم درحقیقت میری نظر میں ریکارڈز کی کبھی اہمیت نہیں رہی۔ میری ہر ٹیسٹ سنچری میرے لیے اس لیے اہم ہے کیونکہ میرا کریز پر ٹھیرنا اور رنز بنانا پاکستان ٹیم کی فتح کے لیے اہم ہوتا تھا اور میرا مقصد بجائے ریکارڈز کے ہمیشہ پاکستان کی فتح رہا۔

جاوید میانداد نے کہا کہ ہزارواں ٹیسٹ ہو یا دو ہزارواں ٹیسٹ یہ سب سنگ میل ضرور ہیں لیکن اصل چیز اپنی ٹیم کی کامیابی ہوتی ہے۔ ریکارڈز اور سنگ میل تو کھیل کا حصہ ہیں، آپ کارکردگی دکھائیں یا نہ دکھائیں اس سنگ میل کو ضرور آنا ہے اور گزر جانا ہے لیکن اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ کی کارکردگی سے ٹیم جیت جائے۔

جاوید میانداد نے 1984ء میں نیاز اسٹیڈیم میں نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ کرکٹ کے ہزارویں ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچری داغ کر پاکستان کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے ماضی کے اوراق پلٹتے ہوئے کہا کہ اس وقت نیاز اسٹیڈیم بہت اہمیت کا حامل تھا، لیکن اس کے بعد شہر میں سہولیات کا فقدان ہونے لگا اور بین الاقوامی مقابلوں کی میزبانی صرف بڑے شہروں پر مرکوز ہونے لگی، یوں حیدرآباد کی رونقیں ماند پڑ گئیں۔

اب جبکہ پاکستان کے تمام کرکٹ مراکز پر بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے بند ہو چکے ہیں اس لیے حیدرآباد سمیت کسی اسٹیڈیم میں مستقبل قریب میں بین الاقوامی مقابلہ ہونے کا کوئی امکان نہیں لیکن کراچی کے بعد سندھ کا دوسرا سب سے بڑا شہر قومی سطح کے ٹورنامنٹس کا ضرور منتظر ہے۔ جس طرح پاکستان کرکٹ بورڈ نے حال ہی میں قومی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کی میزبانی فیصل آباد کو بخشی جہاں ہزاروں شائقین کی موجودگی نے بڑے شہروں کے علاوہ دیگر علاقوں میں عوام کی کرکٹ میں دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح حیدرآباد جیسے بڑی آبادی والے شہروں کو ایسے ٹورنامنٹس کی میزبانی دے کر یہاں کے میدانوں کی رونقیں بحال کی جا سکتی ہیں۔

اس موقع پر ایک قابل توجہ بات یہ ہے کہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے 2 ہزارویں ٹیسٹ کو یادگار انداز میں منعقد کرنے کے لیے دنیا بھر سے اہم شخصیات کو مدعو کیا جس میں تمام ٹیسٹ رکن ممالک کے بورڈ اراکین اور ماضی کے کئی نامور کھلاڑی شامل ہیں تاہم ایک ہزارویں ٹیسٹ کے ہیرو جاوید میانداد کو مدعو نہیں کیا گیا۔ اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اعجاز بٹ بھی لندن یاترا کا لطف اٹھا رہے ہیں لیکن پاکستان کے کسی کرکٹر کو عزت افزائی کے قابل نہیں سمجھا گیا۔ آئی سی سی تو ہزارویں ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچریاں داغنے والے میانداد کو بھول گیا لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ اُن کی سفارش کر کے یا اپنے خرچے پر لے جا کر پاکستان کرکٹ کے مثبت امیج کو دنیا کے سامنے لا سکتا تھا۔