جب کھلاڑیوں کا کام امپائروں نے کیا

0 2,440

آج غیر جانبدار امپائروں اور ٹیکنالوجی کے بھرپور استعمال کے باوجود کرکٹ میں فیصلوں پر تنازعات پیدا ہوتے رہتے ہیں لیکن ذرا تصور کیجیے جب امپائر میزبان ملک کے ہوتے تھے۔ اس زمانے میں "حب الوطنی" کی جو مثالیں قائم ہوئیں، وہ آج کہانیوں کی صورت میں محفوظ ہیں اور یاد دلاتی ہیں ایک ایسے سیاہ دور کی جب میزبان کے لیے امپائر بارہواں کھلاڑی ہوا کرتا تھا۔ کچھ ایسا ہی ہمیں آج سے 38 سال پہلے نیوزی لینڈ میں دیکھنے کو ملا بلکہ اگر بدترین امپائرنگ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ہنگامے کو دیکھا جائے تو شاید ہی 1980ء کی اس نیوزی لینڈ-ویسٹ انڈیز سیریز سے بُری کوئی اور سیریز ہو۔

یہ وہ زمانہ تھا جب ویسٹ انڈیز کو 'کالی آندھی' کہا جاتا تھا۔ وہ دو مرتبہ ورلڈ چیمپیئن رہ چکا تھا بلکہ آسٹریلیا کو اس کے ملک میں ہرا کر نیوزی لینڈ پہنچا تھا۔ فروری کے انہی دنوں میں نیوزی لینڈ کے پاس رچرڈ ہیڈلی تھے اور امپائروں کی جوڑی!

نیوزی لینڈ کے باؤلرز کی اپیل ابھی حلق سے نکلتی ہی تھی کہ امپائروں کی انگلی فضاء میں بلند نظر آتی جبکہ مہمان بیچارے چیختے چلّاتے رہ جاتے اور امپائر "صمٌ بکمٌ عمیٌ" کی عملی تصویر بنے نظر آتے۔ یہاں تک کہ پہلے ٹیسٹ میں مائیکل ہولڈنگ کی ایک گیند نیوزی لینڈ کے بیٹسمین جان پارکر کے دستانوں سے لگ کر پہلی سلپ تک چلی گئی لیکن امپائر جان ہیٹسی نے سُنی اَن سُنی اور دیکھی اَن دیکھی کردی۔ آخری کتنا برداشت کرتے؟ ہولڈنگ نے پھر وہ کیا جو نہ اس سے پہلے کسی باؤلر نے کیا اور اب تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی باؤلر ایسا کرنے کی ہمت کرے۔ ذرا یہ دیکھیں:

جی ہاں! ہولڈنگ نے لات مار کر بیٹنگ اینڈ کی تینوں گلّیاں اکھاڑ دیں۔

بہرحال، امپائروں کی مدد سے نیوزی لینڈ کو صرف 104 رنز کا ہدف ملا۔ پہنچے تو بڑی مشکل سے کیونکہ ویسٹ انڈیز کے باؤلرز کے سامنے یہ بھی بڑا ہدف تھا لیکن جیت ایک وکٹ سے نیوزی لینڈ کو ہی ملی۔ اس کامیابی میں امپائروں کا کتنا بڑا کردار تھا؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ویسٹ انڈیز کی 20 میں سے 12 وکٹیں ایل بی ڈبلیو قرار دی گئی اور ان میں سے 7 رچرڈ ہیڈلی کو ملیں۔

پھر ٹیسٹ بدل گیا، شہر بدل گیا، میدان بدل گیا لیکن امپائرنگ میں وہی ڈھاک کے تین پات! البتہ اس بار ویسٹ انڈیز کے باؤلرز کا غصہ آسمان پر تھا۔ ایک بار کولن کرافٹ کی گیند نیوزی لینڈ کے رچرڈ ہیڈلی کے دستانوں کو چھوتی ہوئی وکٹ کیپر کے ہاتھوں کیچ بن گئی لیکن امپائر بے جان پتلے کی طرح کھڑے رہے۔ یہی نہیں بلکہ اگلے باؤنسر کو نو-بال قرار دیا حالانکہ وہ نہیں تھا۔ تب کرافٹ نے "فیصلہ کن ضرب" لگانے کا فیصلہ کرلیا تھا، بیٹسمین کو نہیں بلکہ امپائر کو۔ وہ رن اپ لیتے ہوئے آئے اور اپنی دائیں کہنی امپائر کو مارتے ہوئے نکل گئے۔ امپائر فریڈ گڈال شدت تکلیف سے بے حال ہوگئے۔ گو کہ وڈیو سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کرافٹ نے یہ حرکت جان بوجھ کر کی تھی لیکن وہ آج تک اس سے انکاری ہیں۔ آپ بھی دیکھ لیجیے:

امپائروں کی مہربانیوں کا سلسلہ چلتا رہا اور نیوزی لینڈ باقی دونوں ٹیسٹ ڈرا کرکے سیریز جیتنے میں کامیاب ہوگیا۔ ایک ایسی ٹیم جس کے پاس رچرڈ ہیڈلی کے علاوہ کوئی ڈھنگ کا کھلاڑی نہیں تھا، وہ آسٹریلیا کو اس کے ملک میں ہرانے والے ویسٹ انڈیز کو شکست دے گیا۔

شرفاء کا کھیل جس طرح نیوزی لینڈ میں بدنام ہوا، شاید ہی کہیں ہوا ہو۔ نہ امپائروں کا رویّہ پیشہ ورانہ تھا اور نہ ہی ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں کا ردّعمل۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نیوٹرل امپائروں کی کمی بہت شدت سے محسوس کی گئی۔ آج اس طرح کی 'اندھی امپائرنگ' تو ممکن نہیں لیکن تنازعات پھر بھی پیدا ہوتے ہیں۔ آپ کے خیال میں گزشتہ 10 سالوں میں امپائروں نے سب سے بڑا کون سا تنازع کھڑا کیا ہے؟