پاکستان کا اگلا کوچ مقامی ہوگا؛ معین، وقار اور محسن میں مقابلہ

2 1,033

بالآخر کئی ماہ اسرار کا پردے کے پیچھے رہنے کے بعد یہ عقدہ کھل ہی گیا کہ پاکستان کا اگلا کوچ کوئی غیر ملکی نہیں بلکہ مقامی ہی ہوگا۔

محسن خان کے مختصر دورانیے میں پاکستان نے انگلستان کو تاریخی کلین سویپ شکست دی تھی (تصویر: AFP)
محسن خان کے مختصر دورانیے میں پاکستان نے انگلستان کو تاریخی کلین سویپ شکست دی تھی (تصویر: AFP)

ڈیو واٹمور کے دو سالہ عہد میں قومی کرکٹ ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے بعد جب اگلے دور کے لیے کوچ کے انتخاب کا معاملہ آیا ہے تو ایک مرتبہ پھر پاکستان نے وہی رویہ اختیار کیا جو ہمیشہ کرتا آ رہا ہے۔ دو مرتبہ مقامی کوچ کا تقرر اور ان کی ناکامیوں کے بعد غیر ملکی کی آمد اور پھر غیر ملکی کوچ کی ناکامی کے بعد پھر مقامی کوچ کا تقرر۔ اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے آج نئے کوچ کی تلاش کے لیے مقررہ سہ رکنی کمیٹی نے 25 درخواستوں پر غور کیا جو پاکستان کے ہیڈ کوچ کے لیے اب تک موصول ہوئی ہیں۔ کمیٹی کا دعویٰ ہے، جو کم از کم معقول نہيں لگتا، کہ ان میں سے کوئی درخواست کسی غیر ملکی نے جمع نہیں کروائی۔

سابق کپتان جاوید میانداد، وسیم اکرم اور انتخاب عالم پر مشتمل تین رکنی کوچ فائنڈنگ کمیٹی نے آج قذافی اسٹیڈیم، لاہور میں منعقدہ اجلاس میں غور و خوض کے بعد دو ناموں پر اتفاق کیا۔ اب ان میں سے کسی ایک کا انتخاب چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ ذکا اشرف کی صوابدید پر ہوگا۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ کمیٹی نے دو ناموں کا انتخاب کیا ہے جو ممکنہ طور پر وقار یونس، معین خان اور محسن خان میں سے کوئی دو ہیں۔ وقار اور محسن ماضی میں بھی پاکستان کی کوچنگ سنبھال چکے ہیں ۔ وقار یونس مارچ 2010ء میں قومی کرکٹ ٹیم کے کوچ مقرر ہوئے اور ان کی زیر تربیت قومی ٹیم ورلڈ ٹی ٹوئنٹی اور عالمی کپ 2011ء کے سیمی فائنل مقابلوں تک پہنچی لیکن اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل ان کے دور کا بدترین واقعہ تھا۔ محسن خان کو وقار یونس کے چھوڑ جانے کے بعد 2011ء کے اواخر میں عارضی طور پر ذمہ داری دی گئی اور ان کے دور کا سب سے بڑا کارنامہ انگلستان کے خلاف تاریخی کلین سویپ تھا لیکن اس کے باوجود انہیں اس سیریز کے بعد عہدے سے ہٹا دیا گیا اور ڈیو واٹمور کو دو سال کے لیے قومی کرکٹ ٹیم کا ہیڈ کوچ بنا دیا گیا۔ معین خان حال ہی میں ٹیم مینیجر کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔

علاوہ ازیں باؤلنگ کوچ محمد اکرم کے دور میں دو سال کی توسیع کردی گئی ہے۔ محمد اکرم کو ایک سال کی مدت کے لیے مقرر کیا گیا تھا اور ان کے عہدے کی یک سالہ میعاد اگست 2013ء میں مکمل ہوچکی تھی لیکن انہیں عارضی بنیادوں پر غیر معینہ مدت کے لیے توسیع ملی تھی اور آج انہیں باضابطہ طور پر دو سال کی توسیع سے نوازا گیا ہے۔

ذمہ داری ملتے ہی نئے کوچ کے لیے ایک بڑے امتحان کا آغاز بھی ہوجائے گا، ایک ایشیا کپ میں اعزاز کا کامیاب دفاع اور دوسرا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں بہترین کارکردگی اور چار سال بعد کھویا ہوا اعزاز واپس لینا۔ عہدہ حاصل کرتے ہی اتنے امتحانوں سے کون گزرے گا؟ چند دنوں میں پتہ چل جائے گا۔