بھارتی رویہ، پاکستان کھلی بغاوت پر آمادہ

2 1,024

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان سابق سفارت کار ہیں۔ وہ فرانس اور برطانیہ جیسے اہم ملکوں میں بھی سفیر رہ چکے ہیں اور خارجہ سیکرٹری کے عہدے پر بھی خدمات انجام دی ہیں۔ انہیں الفاظ کے چناؤ پر ملکہ حاصل ہے اور وہ جانتے ہیں کہ کس لفظ کو کس موقع پر استعمال کرنا ہے۔ اب بھارت کے خلاف آئندہ سیریز سے قبل معاملات کو حتمی شکل دینے، بلکہ "ہاں" یا "ناں" کی صورت میں آخری جواب لینے، کے لیے طے شدہ ملاقات کا خاتمہ ہونے کے بعد صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ دونوں ملکوں کے کرکٹ تعلقات کس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ شہریار خان جیسا جہاندیدہ شخص بھی یہ کہہ رہا ہے کہ پاک-بھارت سیریز کا معمولی سا امکان نہیں بھی ہے اور وہ آئندہ سال ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے دستبردار ہونے پر غور کررہے ہیں۔ پھر اس سے بھی بڑھ کر وہ کہتے ہیں کہ "بگ تھری" کے معاملے پر پاکستان اپنی حمایت واپس لے سکتا ہے کیونکہ اس غیر جمہوری و غیر مساوی نظام سے پاکستان کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔

شہریار خان کو گزشتہ ہفتے بھارتی کرکٹ بورڈ کے صدر شاشنک منوہر سے ملاقات کرنی تھی، لیکن انتہا پسند جماعت شیو سینا کے مظاہرے کی وجہ سے یہ اجلاس نہ ہو سکا۔ اب جو تازہ ترین صورت حال ہے اس سے آگاہ کرنے کے لیے شہریار خان وزیراعظم محمد نواز شریف کو خط لکھ چکے ہیں جس میں انہوں نے بھارت میں درپیش حالات کے بارے میں بتایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آئی سی سی کے کسی بھی ٹورنامنٹ میں عدم شرکت کے نتائج اچھی طرح جانتے ہیں لیکن بھارت میں امن و امان کی صورت حال ایسی ہے کہ پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ "میں سمجھتا ہوں کہ حکومت پاکستان بھی یہی کہے گی کہ آپ بھارت کھیلنے نہ جائیں۔ میں ذاتی طور پر یہ محسوس کرتا ہوں کہ کیونکہ بھارت میں کسی بھی پاکستانی کے لیے حالات غیر یقینی ہیں، جو ہم خود دیکھ کر آئے ہیں، ان حالات میں ہم کہہ بھی نہیں سکتے کہ ہمیں وہاں سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔"

ماضی میں پاک-بھارت کرکٹ تعلقات کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے شہریار خان کہتے ہیں کہ ہم حتمی فیصلہ تبھی لیں گے جب دوطرفہ سیریز کے دروازے بند ہوں گے۔ لیکن ذاتی طور پر انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں پاک-بھارت آئندہ سیریز کا امکان ختم ہوچکا ہے۔ "ہم دوطرفہ تعلقات کی بحالی کے لیے آخری موقع تک جائیں گے۔ اگر بھارت نے جواب دیا تو پھر ایک ڈیڑھ ہفتے میں اس معاملے کا فیصلہ کردیں گے۔ بھارت نے ابھی تک تصدیق نہیں کی، بلکہ کچھ بھی نہیں کہا، بلکہ وہ اس معاملے کو ٹالتا ہی رہا ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ اگر یہ سیریز نہیں ہو سکتی تو ہماری پالیسی کیا ہوگی۔"

چیئرمین پی سی بی نے حالیہ دورے پر بھارتی کرکٹ بورڈ کے رویے کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ "ایک مرتبہ ملاقات مظاہرے کی نظر ہوجانے کے بعد بی سی سی آئی کو ملاقات کے لیے کوئی اور وقت دینے یا اسے دوبارہ کہیں اور طے کرنے کی توفیق بھی نہیں ہوئی۔ جس کی وجہ سے ہم 36 گھنٹے شدید کوفت میں مبتلا رہے۔ "ہم وہاں بھیک مانگنے نہیں گئے تھے بلکہ ہم کرکٹ پر بات کرنے گئے تھے۔ یہ معاملہ آئی سی سی اجلاس میں شروع ہوا تھا جہاں بھارتی صدر نے ہمیں ممبئی مدعو کیا تھا۔ ہم دوطرفہ تعلقات کی بحالی میں دلچسپی رکھتے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ کھیلنے کے لیے مفاہمت کی ایک یادداشت بھی موجود ہے جسے ہم عملی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بات کرنے کے لیے بھارت گئے۔

پاکستان کے اس رویے سے بین الاقوامی کرکٹ میں ایک نیا بھونچال پیدا ہو سکتا ہے۔ ابھی دنیائے کرکٹ کی تین بڑی طاقتوں بھارت، آسٹریلیا اور انگلستان کو تمام اختیارات کا مالک بنائے ہوئے سال بھر ہی گزرا ہے۔ "بگ تھری" آئی سی سی کی آمدنی میں اپنی مرضی کا حصہ پا رہے ہیں اور آئینی تبدیلی پر بھی مکمل گرفت رکھتے ہیں لیکن بھارت کے اس رویے نے پاکستان کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اس نے سال پہلے جو کڑوا گھونٹ پیا تھا، وہ تھوک دے۔ ابھی یہ اندازہ تو نہیں ہے کہ ایسا کرنے سے کیا ہوگا، لیکن ایسا کرنا ناگزیر ہوچکا ہے۔

بھارت نے "بگ تھری" معاملے پر حمایت کے بدلے میں آئندہ آٹھ سالوں میں پاکستان کے ساتھ چھ باہمی سیریز کھیلنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ درحقیقت پاکستان کو ٹھگ لیا گیا تھا۔ بھارتی کرکٹ بورڈ جانتا تھا کہ اس کی حکومت دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ تعلقات بحال نہیں ہونے دے گی، لیکن اس نے پاکستان کی حمایت حاصل کرکے اپنا الّو سیدھا کیا اور اب پاکستان دوراہے، بلکہ چوراہے، پر کھڑا ہے۔

شہریار خان کہتے ہیں کہ "ہم نے نئے آئین پر اس لیے دستخط کیے تھے کہ ہمیں یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ نئے نظام میں سب کو مساوی اور یکساں مواقع ملیں گے اور بھارت بھی ہم سے آٹھ سالوں میں چھ مرتبہ باہمی سیریز کھیلے گا، جو پچھلے 8 سالوں سے ہم سے نہیں کھیلا۔ اس کی وجہ سے ہم نے مخالفت چھوڑی اور آئی سی سی کو بالاتفاق رائے فیصلہ کرنےکا موقع ملا۔" اب وہ کہتے ہیں کہ "پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک بھی ہیں جو آئی سی سی بورڈ کے غیر منصفانہ رویے سے خوش نہیں۔ یہ غیر مساوی اور غیر جمہوری رویہ ہے۔ کیونکہ ہم نے اس پر دستخط کیے ہوئے تھے اس لیے اسے قبول کرنا تھا۔ لیکن ایک سال کے اندر اگر تمام ممالک کے ساتھ یکساں رویہ نہ ہو تو میرے خیال میں پاکستان کو غور کرنا ہوگا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ ہم کیا کرسکتے ہیں؟ دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔"