مسلسل چار چھکے اور ویسٹ انڈیز بن گیا چیمپئن، چیمپئن!!!

0 1,625

کیا ایک طویل زوال کے بعد ویسٹ انڈیز ایک مرتبہ پھر عروج کی راہ پر گامزن ہے؟ ابھی ڈیڑھ مہینہ پہلے انڈر 19 ورلڈ کپ جیتا، اس کے بعد آج دوپہر میں ویمنز ورلڈ ٹی ٹوئنٹی اور پھر کلکتہ کے اسی میدان پر آخری اوور میں کارلوس بریتھویٹ کے لگاتار چار چھکوں کی مدد سے دوسری بار ٹی ٹوئنٹی کا عالمی کپ بھی جیت لیا۔

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016ء کے فائنل میں ویسٹ انڈیز 156 رنز کے ہدف کے تعاقب میں تھا اور اسے آخری پانچ اوورز میں 52 رنز کی ضرورت تھی، یعنی امکانات باقی تھے لیکن یک بیک آندرے رسل اور ڈیرن سیمی کی قیمتی وکٹیں گر گئیں اور ویسٹ انڈیز کی امیدوں کا چراغ بجھنے لگا۔ یہاں تک کہ آخری اوور کے آغاز پر اسے پورے 19 رنز درکار تھے۔ بین اسٹوکس کو یہ اوور کروانے کی ذمہ داری دی گئی اور ان کا سامنا کیا کارلوس بریتھویٹ نے، جنہوں نے ناقابل یقین انداز میں ابتدائی چاروں گیندوں پر چھکے لگا کر مقابلے کا فیصلہ کردیا۔ یوں ویسٹ انڈیز پہلا ملک بن گیا جس نے دوسری بار ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ٹرافی اٹھائی۔

ویسٹ انڈیز کی کامیابی میں اہم ترین کردار مارلون سیموئلز کا تھا۔ چار سال قبل کولمبو میں فاتحانہ اننگز کھیلنے والے سیموئلز نے اس وقت میدان سنبھالا جب صرف 11 رنز پر ویسٹ انڈیز کے تین کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔ ان میں اہم ترین بلے باز کرس گیل، ان فارم جانسن چارلس اور سیمی فائنل کے ہیرو لینڈل سیمنز شامل تھے۔ انگلستان مقابلے پر چھا چکا تھا جب سیمنز نے ڈیرن براوو کے ساتھ 75 رنز جوڑ کر ویسٹ انڈیز کو واپسی کی راہ دکھائی۔ وہ 27 رنز پر اس وقت وکٹوں کے پیچھے کیچ آؤٹ ہوئے تھے جب ویسٹ انڈیز کو ان کی سخت ضرورت تھی۔ بوجھل قدموں سے واپس آنے لگے لیکن ری پلے میں ظاہر ہوا کہ گیند وکٹ کیپر جوس بٹلر کے ہاتھوں میں جانے سے پہلے زمین کو چھوئی ہے۔ پھر سیموئلز واپس آئے اور انگلستان کے زخموں پر آخر تک نمک چھڑکتے رہے۔ انہوں نے صرف 66 گیندوں پر 86 رنز بنائے۔ اس میں دو چھکے اور 9 چوکے شامل تھے۔ براوو نے 27 گیندوں پر ذمہ دارانہ 25 رنز بنائے۔ ان کے آؤٹ ہوتے ہی ویسٹ انڈیز ایک مرتبہ پھر مقابلے سے باہر ہونے لگا۔ سات، آٹھ گیندوں کے فرق سے براوو، رسل اور سیمی کی وکٹیں بھی گرگئیں اور انگلستان کی کامیابی یقینی ہوگئی۔ لیکن آخری اور فیصلہ کن ضرب ویسٹ انڈیز نے ہی لگائی اور یوں بین اسٹوکس 'سعید اجمل' کہ جو 2010ء کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سیمی فائنل میں آسٹریلیا کے خلاف آخری اوور میں 19 رنز کا ہی دفاع نہیں کر سکے تھے۔

قبل ازیں ویسٹ انڈیز کی دعوت پر انگلستان نے بلے بازی سنبھالی تو ابتدائی چند اوورز میں اس کا حال بھی ویسٹ انڈیز جیسا ہی تھا۔ پانچویں اوور میں جب ایون مورگن سیموئل بدری کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے تو صرف 23 رنز پر انگلستان کی تین وکٹیں گر چکی تھیں۔ یہاں پر جو روٹ نے ایک اور کمال اننگز کھیلی۔ انہوں نے صرف 36 گیندوں پر 54 رنز بنائے اور بٹلر کے ساتھ مل کر اسکور کو بارہویں اوور میں 84 رنز تک پہنچا دیا۔ وکٹ کیپر نے 22 گیندوں پر 36 رنز کی اننگز کھیلی جس میں تین شاندار چھکے بھی شامل تھے۔ ان کے بعد بین اسٹوکس اور معین علی صرف دو گیندوں کے وقفے سے آؤٹ ہوئے۔ انگلستان اس دھچکے سے نکل ہی نہیں پایا تھا کہ پندرہویں اوور کی پہلی گیند روٹ کی واپسی کا پروانہ لے کر آئی۔ ان کے بعد صرف صرف ڈیوڈ ولی نے ہی 14 گیندوں پر 21 رنز کے ساتھ کچھ قابل ذکر حصہ ڈالا لیکن ابتدائی خراب حالات کے باوجود مقررہ اوورز میں 155 رنز تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔

ویسٹ انڈیز کی جانب سے کارلوس بریتھویٹ نے ہی سب سے عمدہ باؤلنگ بھی کی۔ انہوں نے 23 رنز دے کر 3 وکٹیں حاصل کیں جبکہ تین ہی کھلاڑیوں کو ڈیوین براوو نے آؤٹ کیا۔ دو وکٹیں سیموئل بدری کو ایک آندرے رسل کو ملی۔

آخر میں سیموئلز کو فاتحانہ اننگز پر میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز ملا جبکہ سپر10 مرحلے میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بھارت کے ویراٹ کوہلی کو سیریز کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

یہ تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی ملک نے دوسری بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتا ہو۔ اس سے قبل 2007ء میں بھارت، 2009ء میں پاکستان، 2010ء میں انگلستان، 2012ء میں ویسٹ انڈیز اور 2014ء میں سری لنکا جیت چکے ہیں۔