ڈیرن سیمی کا جذباتی خطاب، مکمل متن

0 1,214

صرف 6 گیندوں پر 19 رنز درکار تھے جب شائقین کرکٹ کی اکثریت کے سامنے واضح ہو چکا تھا کہ بس اب انگلستان فاتح ہوگا لیکن دنیا نے دیکھا کہ کارلوس بریتھویٹ نے کس طرح ناممکن کو ممکن بنایا اور سب کو غلط ثابت کر دکھایا۔ لگاتار چار چھکوں کے ساتھ انہوں نے دو گیندیں قبل ہی مقابلے کا خاتمہ کردیا۔ یوں ویسٹ انڈیز تاریخ کی پہلی ٹیم بن گیا، جس نے دو مرتبہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ٹائٹل جیتا۔ ویسے ویسٹ انڈیز ایک روزہ کرکٹ کا عالمی کپ بھی دو بار جیتنے والا پہلا ملک تھا۔

اس کامیابی کے بعد جو جشن منایا گیا، وہ صرف ویسٹ انڈیز ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں جاری ہے۔ 2016ء ویسٹ انڈیز کرکٹ کے لیے میدان عمل میں ایک تاریخی ثابت ثابت ہو رہا ہے۔ دو ماہ کے اندر اندر 'کالی آندھی' نے تین بڑے اعزازات جیتے ہیں۔ پہلے فروری میں انڈر 19 ورلڈ کپ، پھر خواتین کا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی اور آخر میں مردوں کا ٹی ٹوئنٹی عالمی کپ بھی۔ ایک ایسے وقت میں جب عالمی جشن شروع ہوا ہی تھا تو تقریب تقسیم انعامات کے دوران ویسٹ انڈیز کے کپتان ڈیرن سیمی کی جذباتی گفتگو نے خاموشی طاری کردی۔ ان کی یہ تقریر پاکستان سمیت ان تمام ملکوں کے کھلاڑیوں کے لیے مشعل راہ ہے، جو میدان کے اندر اور باہر مسائل سے دوچار ہیں۔ سیمی نے اپنی گفتگو کا آغاز کچھ یوں کیا:

’’سب سے پہلے تو میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کیونکہ اس کی مدد کے بغیر یہ فتح ممکن ہی نہیں تھی۔ یہ کامیابی پوری ٹیم کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے اور یہ طویل عرصے تک چہروں پر خوشیاں لانے کی وجہ بنے گی۔ بریتھویٹ نے جو کچھ آج کیا وہ یقیناً قابل تحسین ہے، لیکن جیسا میں نے ٹورنامنٹ سے پہلے کہا تھا کہ اِس ٹیم میں 15 ایسے کھلاڑی ہیں جو ٹیم کو فتح دلانے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اور اگر آپ پورے ایونٹ پر نظر ڈالیں تو ایسا ہی ہوا۔ ہر میچ میں فتح کا ذمہ دار ایک نیا کھلاڑی تھا‘‘۔

جب میزبان ناصر حسین نے پوچھا کہ آپ 2012ء اور 2016ء کی فتح کا موازنہ کس طرح کریں گے۔ جس پر ایک لمحہ خاموش رہنے کے بعد سیمی نے پوچھا کہ کیا آپ واقعی چاہتے ہیں کہ میں اس کا جواب دوں؟ تو سنیے: " داخلی مسائل کی وجہ سے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے پہلے ہمیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ہم کھیلیں گے بھی یا نہیں۔ ایسے کئی مسائل تھے جن کا ہم سامنا کررہے تھے اور سب سے بڑا مسئلہ ہمارا کرکٹ بورڈ، جس نے ہمیں بالکل بھی عزت نہیں دی۔ پھر مارک نکلس کا بیان آیا کہ یہ دماغ سے عاری ہیں۔ یہ وہ بنیادی وجوہات تھیں جس نے تمام تر مسائل کے باوجود ہمارے تمام کھلاڑیوں کو متحد اور یکجان کیا۔ میں آج اپنے 15 کھلاڑیوں اور عملے کے دیگر افراد کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کیونکہ یہ فتح اُنہی کی مرہون منت ہے۔ جس طرح انہوں نے پورے ایونٹ میں کارکردگی کا مظاہرہ کیا وہ قابل دید ہے۔ میں یہاں خصوصی طور پر کوچ فل سمنز کا شکریہ ادا کروں گا جنہوں نے مشکل حالات میں کوچنگ کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور ٹیم کو لڑنے کے قابل بنایا۔ کوچ کے علاوہ اگر مینیجر رال لوئس کا ذکر نہ کیا جائے تو ناانصافی ہوگی۔ رال لوئس نے اِس سے قبل کسی ٹیم کے ساتھ ذمہ داریاں سرانجام نہیں دی تھیں۔ یہ ان کے لیے نیا تجربہ تھا لیکن انہوں نے اپنی ذمہ داریاں انتہائی ذمہ داری سے انجام دیں۔ جب ہم اپنے کیمپ کےلیے دبئی پہنچے تھے تو ہمارے پاس پہننے کے لیے یونیفارم تک نہیں تھا۔ لوئس کلکتہ آئے اور ہمارے کے لیے یونیفارم کا بندوبست کیا۔ مشکل ترین حالات میں ہم فائنل تک پہنچے اور صبح ہی وزیراعظم کیتھ مچل نے رابطہ کیا کھلاڑیوں کے اعتماد کو بلند کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا، لیکن اب تک کرکٹ بورڈ کے کسی بھی فرد نے ہم سے رابطہ نہیں کیا جو مایوس کن ہے۔"

اِن جذباتی الفاظ کی ادائیگی کے بعد سیمی کا کہنا تھا کہ جو ہوا سو ہوا، آج وہ اپنے 15 کھلاڑی اور کوچنگ اسٹاف کے ساتھ بھرپور جشن منانے والے ہیں۔ انہوں نے کچھ اِس طرح الفاظ ادا کیے: "آج کی فتح کا جشن میں اپنے کھلاڑیوں اور کوچنگ اسٹاف سے ساتھ مناؤں گا اور بھرپور انداز میں مناؤں گا کیونکہ میں نہیں جانتا کہ ان لڑکوں کے ساتھ اگلی بار کھیلنے کا موقع بھی ملے گا یا نہیں۔ کیونکہ کرکٹ بورڈ ہمیں ایک روزہ کے لیے منتخب نہیں کرتا، اور اگلی بار ٹی ٹوئنٹی سیریز کب ہو؟ یہ میں نہیں جانتا۔ اِس لیے اِس جیت کے لیے میں پوری قوم، تمام کھلاڑیوں اور کوچنگ اسٹاف کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں اور یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ’ویسٹ انڈیز چیمپئن ہے‘۔"