[آج کا دن] ایک عظیم قائد: عبد الحفیظ کاردار
پاکستان کرکٹ دراصل 'بحرانوں کی کرکٹ' ہے۔ یہاں جتنی اکھاڑ پچھاڑ مچتی ہے اس کا تھوڑا سا اندازہ گزشتہ چیئرمین اعجاز بٹ کے دور سے لگایا جا سکتا ہے جس کے دوران پاکستان نے 6 ٹیسٹ کپتان بدلے۔ اس لیے کسی بھی قائد کا یہاں جمے رہنا اور بورڈ، کھلاڑیوں اور شائقین سب کی نظر میں یکساں مقبول ہونا ایک ناممکن نہیں تو بہت مشکل کام ضرور دکھائی دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں صرف دو کپتان ایسے رہے جنہوں نے ہر سطح پر عزت افزائی حاصل کی ایک ورلڈ کپ فاتح عمران خان اور دوسرے پاکستان کے پہلے کپتان عبد الحفیظ کاردار۔ آج یعنی 17 جنوری کو پاکستان کرکٹ کاروان کے اسی پہلے قائد کا یوم پیدائش ہے۔ عبد الحفیظ کاردار 1925ء میں آج ہی کے دن لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔
عبد الحفیظ کاردار نے تقسیم ہند سے قبل ہندوستان کی جانب سے بھی تین ٹیسٹ میچز کھیلے تھے۔ آپ 1946ء میں دورۂ انگلستان پر جانے والے ہندوستانی دستے میں شامل تھے جہاں تین ٹیسٹ مقابلوں میں آپ نے متحدہ ہندوستان کی نمائندگی کی اور لارڈز کے تاریخی میدان میں اپنے بین الاقوامی ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا۔
انگلستان کے خلاف اس سیریز کے بعد آپ آکسفرڈ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے برطانیہ ہی میں ٹھیر گئے۔ اس قیام کے دوران آپ نے واروکشائر کی جانب سے کاؤنٹی کرکٹ بھی کھیلی اور پھر کلب چیئرمین کی صاحبزادی سے شادی کے بعد پاکستان آ گئے۔
آپ نے 1952ء میں اولین دورۂ ہندوستان میں پہلی بار پاکستان کی قیادت کی۔ انتظامی سطح پر آپ 1972ء میں پاکستان کرکٹ بورڈ میں سلیکٹرز کے چیئرمین بنے اور پھر صدر کے عہدے پر ترقی کر گئے اور بے جا حکومتی مداخلت، تنخواہوں کے معاملے پر کھلاڑیوں کے تحفظات اور اپنے سخت گیر رویے کے باعث بالآخر 1977ء میں اس عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
مشکلات سے گھرے ایک نو آموز ملک اور اس سے بھی زیادہ کمزور کرکٹ ٹیم ہونے کے باوجود یہ عبد الحفیظ کاردار کی جرات مندانہ قیادت تھی جس کی بدولت پاکستان نے نہ صرف پہلے دورۂ بھارت میں لکھنؤ کی تاریخی کامیابی سمیٹی بلکہ اولین دورۂ انگلستان میں اوول میں میزبان ٹیم کے خلاف یادگار فتح حاصل کی۔ یہ کاردار کی دلیرانہ قیادت تھی جس میں پاکستان نے اپنے مدمقابل ہونے والے ہر ٹیسٹ کھیلنے والے ملک کو کم از کم ایک شکست ضرور دی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ سے رخصتی کے بعد آپ نے سفارتی سطح پر بھی پاکستان کی نمائندگ کی اور سوئٹزرلینڈ میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیں۔
آپ کی زیر قیادت پاکستان نے پہلی فتح اکتوبر 1952ء بھارت کے اولین دورے میں ہی حاصل کی جو بحیثیت ٹیسٹ ٹیم پاکستان کا پہلا دورہ تھا۔ جس میں پاکستان نے فضل محمود کی تباہ کن گیند بازی کی بدولت بھارت کو لکھنؤ میں ایک اننگز اور 43 رنز سے شکست دی۔ گو کہ پاکستان نے 5 ٹیسٹ میچز کی سیریز میں 2-1 سے شکست کھائی لیکن لکھنؤ کی اس جیت نے پاکستان کرکٹ میں فتوحات کی ایسی بنیاد ڈالی جس پر بعد ازاں قومی کرکٹ ٹیم کی پوری عمارت کھڑی ہوئی۔ مذکورہ مقابلہ فضل محمود کی 12 وکٹوں اور واحد اننگز میں اوپنر نذر محمد کی 124 رنز کی سنچری اننگز کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ فضل محمود نے پہلی اننگز میں 5 اور دوسری میں 7 وکٹیں حاصل کیں اور انہی کی تباہ کن گیند بازی کی بدولت پاکستان نے بھارت کی مضبوط بیٹنگ لائن اپ کو 106 اور 182 پر آل آؤٹ کیا اور میچ ایک اننگز اور 43 رنز سے جیتا۔ اور بہرحال سب سے بڑھ کر عبد الحفیظ کاردار کی قائدانہ صلاحیتیں تھیں جنہوں نے ایک نئی ٹیم میں فتح حاصل کرنے کا حوصلہ پیدا کیا۔
اس کے بعد ایک عبد الحفیظ کاردار کی قیادت میں پاکستان کو ایک ایسی فتح نصیب ہوئی جسے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ جی ہاں! 1954ء کے دورۂ انگلستان میں اوول میں تاریخی فتح۔ جہاں ایک مرتبہ پھر میچ کے ہیرو تھے فضل محمود۔ جنہوں نے 12 حریف کھلاڑیوں کو آؤٹ کر کے پاکستان کو 24 رنز کی تاریخی فتح سے ہمکنار کیا۔ یہ پاکستان کی بین الاقوامی کرکٹ میں آمد کا حقیقی اعلان تھا جس نے بابائے کرکٹ کو اسی کی سرزمین پر زیر کیا۔
آپ کی زیر قیادت پاکستان نے 1955ء میں پاکستان کا دورہ کرنے والے پہلی ٹیم نیوزی لینڈ کو تین ٹیسٹ میچز کی سیریز میں 2-0 سے ہرایا جس میں پاکستان نے کراچی ٹیسٹ ایک اننگز اور ایک رن کے واضح مارجن سے جبکہ لاہور ٹیسٹ 4 وکٹوں سے جیتا۔ ڈھاکہ میں کھیلا گیا تیسرا ٹیسٹ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان نے کسی سیریز میں فتح حاصل کی ہو۔
عبد الحفیظ کاردار کی ایک اور یادگار فتح 1956ء میں آسٹریلیا کے دورۂ پاکستان کے واحد ٹیسٹ میں رہی، جہاں اُن کی ذمہ داری بلے بازی اور بعد ازاں فضل محمود کی تباہ کن باؤلنگ نے پاکستان کو 9 وکٹوں کی یادگار فتح سے ہمکنار کیا۔ یہ مقابلہ کراچی کے تاریخی نیشنل اسٹیڈیم میں کھیلا گیا تھا۔
1958ء کا دورۂ ویسٹ انڈیز عبد الحفیظ کاردار کے کرکٹ کیریئر کا نقطہ اختتام تھا۔ 5 مقابلوں کی سیریز 3-0 سے ہارنے کے بعد پاکستان آخری میچ کھیلنے پورٹ آف اسپین پہنچا جہاں کاردار نے بحیثیت کھلاڑی و قائد اپنا آخری میچ کھیلا جس میں ویسٹ انڈیز جیسی عظیم ٹیم کو ایک اننگز اور ایک رن کے بڑے مارجن سے شکست دے کر قومی کرکٹ ٹیم نے اس عظیم قائد کو شاندار انداز میں الوداع کیا۔ مذکورہ مقابلہ پہلی اننگز میں فضل محمود اور دوسری اننگز میں نسیم الغنی کی تباہ کن گیند بازی اور پاکستان کی جانب سے کھیلی گئی واحد اننگز میں امتیاز احمد کے 189 رنز اس میچ کی بہترین کارکردگی تھے۔
لیکن یہ دورہ سیریز کے پہلے ٹیسٹ کے باعث مدتوں یاد رکھا جائے گا جس میں پاکستان نے حنیف محمد کی ریکارڈ ساز ٹرپل سنچری کی بدولت ہارا ہوا میچ برابر کیا تھا جسے آج بھی تاریخ کی بہترین اننگز میں شمار کیا جاتا ہے۔ برج ٹاؤن میں کھیلے گئے اس میچ سے قبل عبد الحفیظ کاردار اور حنیف محمد کے درمیان بات چیت بند تھی۔ لیکن اس کے باوجود کاردار جس طرح رقعے لکھ کر حنیف محمد کی حوصلہ افزائی کرتے وہ ان کے بڑے پن اور قائدانہ کردار کی دلیل تھی۔
عبد الحفیظ کاردار نے اپنے کیریئر میں 26 ٹیسٹ میچز کھیلے جن میں سے 3 ہندوستان اور 23 پاکستان کے لیے کھیلے۔ پاکستان کے لیے کھیلے گئے تمام ٹیسٹ مقابلوں میں وہ کپتان رہے۔ آپ نے کیریئر میں 23.76 کی اوسط سے 927 رنز بنائے اور 21 وکٹیں بھی حاصل کیں۔
21 اپریل 1996ء کو یہ عظیم قائد اسلام آباد میں جہانِ فانی سے کوچ کر گیا۔آئیے اسے خراج تحسین پیش کریں۔