حد سے زیادہ خود اعتمادی پاکستان کو لے ڈوبی، پہلے ایک روزہ میں 130 رنز کی بھاری شکست

0 1,042

انگلستان نے بلے بازی اور گیند بازی میں یکساں عمدہ کارکردگی کی بدولت پاکستان کو پہلے ایک روزہ مقابلے میں با آسانی 130 رنز سے شکست دے دی۔ پاکستان کو حد سے زیادہ خود اعتمادی لے ڈوبی جبکہ ٹیم کی باڈی لینگویج بھی انتہائی مایوس کن نظر آئی خصوصاً بلے باز اور فیلڈرز بہت زیادہ تھکے ماندے نظر آئے اور حکمت عملی کی واضح کمی بھی محسوس دی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی ایک روزہ کرکٹ میں مسلسل فتوحات اور انگلستان کی مسلسل شکستوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔

انگلستان کی فتح کی بنیاد رکھنے میں چند ایسے کھلاڑیوں نے حصہ ڈالا جنہیں کئی ماہرین کی خواہش کے باوجود ٹیسٹ ٹیم میں جگہ نہیں دی گئی تھی یعنی روی بوپارا اور اسٹیون فن نے۔ جبکہ اہم ترین کارکردگی ایک روزہ ٹیم کے کپتان ایلسٹر کک نے دکھائی جنہوں نے اپنے ایک روزہ کیریئر کی سب سے بہترین و فتح گر اننگ کھیلی اور 137 رنز بنائے۔ یہ ان کے ایک روزہ کیریئر کی تیسری سنچری تھی جس میں 14 چوکے شامل تھے اور صرف 142 گیندوں کا استعمال کیا۔ انہوں نے روی بوپارا کے ساتھ مل کر تیسری وکٹ پر 131 رنز جوڑے اور انگلستان کو مشکل سے نکالا کیونکہ 57 کے مجموعے پر شاہد آفریدی کے ہاتھوں دو مسلسل گیندوں پر اس کے دو جانے مانے بلے باز کیون پیٹرسن (14 رنز) اور جوناتھن ٹراٹ (صفر) پویلین لوٹ چکے تھے۔

کپتان ایلسٹر کک کی زبردست بلے بازی کی بدولت انگلستان ایک اچھی پوزیشن پر آگیا تاہم آخری اوورز میں پاکستانی گیند بازوں نے حریف ٹیم کے رنز کے آگے کافی بند باندھا اور ایک وقت میں جہاں انگلستان کی نظریں 300 رنز پر مرکوز تھیں، اسے 260 رنز پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ کک کے 137 اور بوپارا کے 50 رنز کے علاوہ کوئی بلے باز قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکا اور صرف پیٹرسن اور سمیت پٹیل ہی دو ایسے بلے باز تھے جن کی اننگز دہرے ہندسے میں پہنچیں۔

انگلستان کو جہاں پاکستانی فیلڈرز کی سست روی سے فائدہ ہوا وہیں قسمت نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا۔30 کے مجموعی اسکور پر جب ایلسٹر کک اپنے 'ناپسندیدہ ترین گیند باز' محمد حفیظ کے ہاتھوں ایل بی ڈبلیو ہو گئے اور امپائر نے انہیں آؤٹ بھی دے دیا لیکن امپائرز کے فیصلوں پر نظر ثانی کے نظام (ڈی آر ایس) کے طفیل وہ اپنی وکٹ بچانے میں کامیاب ہو گئے کیونکہ گیند ان کے پیڈ پر لگنے سے قبل بلے کو چھو کر آئی تھی۔ یوں پہلے مقابلے میں تو ڈی آر ایس انگلستان کے لیے بڑی رحمت ثابت ہوا۔ ظاہر سی بات ہے اگر انگلستان کے کل مجموعے میں سے کک کی اننگز نکال دیں تو باقی کیا بچتا؟

اسٹیون فن کی عمدہ گیند بازی پاکستانی بلے بازوں کے لیے کافی ثابت ہوئی (تصویر: Getty Images)
اسٹیون فن کی عمدہ گیند بازی پاکستانی بلے بازوں کے لیے کافی ثابت ہوئی (تصویر: Getty Images)

بہرحال، پاکستان کی جانب سے سعید اجمل نے 43 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کیں لیکن مصباح الحق سے غلطی یہ ہوئی کہ انہیں کافی دیر میں طلب کیا گیا جب عمر گل، محمد حفیظ، شاہد آفریدی اور وہاب ریاض سے انگلش بلے باز نہ سنبھلے اُس وقت۔ انہوں نے اپنی اہلیت اور اپنی گیندوں سے انگلش گیند بازوں کی ناسمجھی کا فائدہ تو اٹھایا لیکن اس وقت تک انگلستان میچ میں قدم جما چکا تھا۔ انگلستان نے مقررہ 50 اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 260 رنز بنائے۔ سعید اجمل کے علاوہ دو وکٹیں شاہد آفریدی نے حاصل کیں۔

ٹاس ہارنے کے بعد ہدف کا تعاقب کرنے پر مجبور پاکستان کے لیے اتنا بڑا ہدف حاصل کرنا بہت مشکل تھا خصوصاً مصنوعی روشنی میں کیونکہ اس صورتحال میں بلے بازوں، اور وہ بھی پاکستانیوں کے لیے، جو ہمیشہ ہی ہدف کے تعاقب میں کمزور رہے ہیں، برق رفتاری سے کھیلنا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور تھا۔ اور وہی ہوا، اسٹیون فن نے اپنے دوسرے اوور کی پہلی دو گیندوں پر محمد حفیظ اور اسد شفیق کو ایل بی ڈبلیو کر کے پاکستان کو ایسا دھچکا پہنچایا جس سے وہ آخر تک باہر نہ نکل سکا۔ اس وقت جب موقع تھا کہ عمران فرحت ٹیم میں اپنی موجودگی کی اہمیت کو ثابت کریں، یونس خان اپنے تجربے کی بنیاد پر اننگز کو زوال پذیر ہونے سے بچائیں اور کپتان مصباح الحق نچلے آرڈر کے تیز بلے بازوں یعنی عمر اکمل اور شاہد آفریدی کی رہنمائی کرتے ہوئے فتح کی جانب پیشقدمی کو جاری رکھیں، لیکن 'الٹی ہوگئیں سب تدبیریں' کیونکہ اسٹیون فن کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا جن کی انتہائی نپی تلی گیندوں پر پاکستانی بلے باز یکے بعد دیگرے میدان بدر ہوتے رہے۔ پہلے یونس خان 15 رنز بنا کر وکٹوں کے پیچھے کیچ دے بیٹھے۔ ایک روزہ ٹیم کے کیپر کریگ کیزویٹر نے بلے کے اندرونی کنارے سے لگ کر جانے والی گیند کو بائیں جانب جست لگا کر انتہائی خوبصورتی سے اپنے دستانوں میں جکڑا۔ پھر باری عمران فرحت کی آئی جو 10 رنز بنا کر اپنی نااہلی پر مہر ثبت کر گئے جبکہ کپتان مصباح الحق 53 کے مجموعی اسکور پر 14 رنز بنا کر سمیت پٹیل کی پہلی وکٹ بنے، یوں پاکستان کے ابتدائی پانچوں بلے باز مظلومیت کی تصویر بنے ٹیم کو دورے کی پہلی شکست کی جانب جاتے ہوئے دیکھتے رہے۔

ایک روزہ ٹیم میں 'خصوصی طور پر طلب کیے گئے' شعیب ملک 7 رنز کے لیے 23 گیندیں ضایع کرنے کے بعد گیند کو میدان بدر کرنے کے چکر میں خود باہر ہو گئے۔ یوں کریز پر موجودہ ٹیم کی سب سے ناقابل اعتبار جوڑی یعنی عمر اکمل اور شاہد آفریدی رہ گئے۔ عمر اکمل تو کمر کی تکلیف کے باعث دوڑنے سے بھی لاچار نظر آ رہے تھے، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے انتہائی سست اننگز کھیلی اور کئی مواقع پر کوشش کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر پائے۔ شاہد اور عمر نے پاکستان کی اننگز کی سب سے بڑی یعنی 28 رنز کی شراکت بنائی اور بالآخر عمر اکمل اپنی کمزوری کے باعث آؤٹ ہو گئے جو گریم سوان کی ایک گیند پر روکنے میں ناکامی کے ساتھ کریز میں واپس بھی نہ آ سکے اور کیزویٹر کے فوری ایکشن یعنی اسٹمپ پر آؤٹ ہوگئے۔ انہوں نے 39 گیندوں پر 22 رنز بنائے۔

ان کے جاتے ہی شاہد آفریدی کے لیے اس کے علاوہ کوئی اختیار نہیں تھا کہ وہ ہر گیند کو میدان بدر کرنے کی کوشش کریں اور زیادہ سے زیادہ رنز سمیٹیں اور انہوں نے یہی کیا۔ پہلے سمیت پٹیل کی دو گیندوں کی چوکے کی راہ دکھائی اور پھر انہیں بائے کے 5 رنز مل گئے لیکن اس کے باوجود 'ھل من مزید' کی کوشش میں لانگ آف پرگریم سوان کو کیچ دے بیٹھے۔ وہ 22 گیندوں پر 4 چوکوں کی مدد سے 28 رنز بنا کر پاکستان کے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین رہے۔

آخری دو وکٹوں نے مجموعے میں 21 رنزکا اضافہ کیا اور پاکستان کو ایک 130 رنز کی ایک بھاری بھرکم اور حوصلہ شکن ہار سہنا پڑی۔

میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پانے والے انگلش کپتان ایلسٹر کک کے علاوہ میچ کے ہیرو اسٹیون فن تھے جن کی کاری ضربوں نے انگلش فتح کو یقینی بنایا۔ اسٹیون فن نے 34 رنز دے کر 4 وکٹیں حاصل کیں جو ان کے کیریئر کی اعلیٰ ترین کارکردگی تھی اور دونوں کی انہی کیریئر بیسٹ کارکردگیوں نے 4 ایک روزہ مقابلوں میں انگلستان کو 1-0 کی حیران کن برتری دلا دی۔ آخری مرتبہ بھارت کے خلاف تمام مقابلوں میں شکست کے بعد یہ محدود طرز کی کرکٹ میں انگلستان کی اچھی واپسی ہوگی اور اس سے عالمی درجہ بندی میں پاکستان کی سری لنکا سے آگے نکلنے اور چوتھی پوزیشن پر قبضے کی کوششوں کو سخت دھچکا پہنچا ہوگا۔

اب دونوں ٹیمیں 15 فروری کو ابوظہبی کے اسی میدان پر ایک مرتبہ پھر مدمقابل ہوں گی، جہاں پاکستان کو لازماً فتح حاصل کرنا ہوگی کیونکہ مسلسل دوسرے مقابلے میں شکست سے انگلستان کو سیریز میں ناقابل شکست برتری حاصل ہو جائے گی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان پہلے مقابلے میں کی گئی غلطیوں سے کیا سبق حاصل کرتا ہے، اور کیا 'گیم پلان' بناتا ہے۔ کیونکہ پہلے ایک روزہ میں تو کوئی گیم پلان نظر نہیں آیا۔ ایسا لگتا تھا کہ مصباح الحق یہ سوچ کر میدان میں اترے تھے کہ انہیں پہلے بیٹنگ کرنی ہے، اور معاملہ الٹ ہونے کے ساتھ ہی ان کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ گئیں۔

ہمارے خیال میں وہاب ریاض کو اس ناقص کارکردگی کے بعد باہر کر دینا چاہیے اور پاکستان کو عبد الرحمن کو ایک روزہ ٹیم میں استعمال کرنا چاہیے جبکہ شعیب ملک کی جگہ نوجوان حماد اعظم کو موقع دینا چاہیے۔

اسکور کارڈ کچھ دیر میں ملاحظہ کریں